سعودی عرب میں کس طرح کی حکومت بن رہی ہے؟
عرب صحافی خالد جیوسی نے لندن میں سعودی عرب کے سفیر کے بیان پر دقیق جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب شاید اپنا پوری شکل بدلنے کا فیصلہ کر چکا ہے اور حکومت بالکل الگ انداز میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
سعودی عرب کے اعلی حکام نے پہلے تو وہابیت اور سیاسی قیادت کے درمیان فرق اور فاصلے پر تاکید کی۔ اب سعودی عرب 1727 کے واقعے کا جشن منا رہا ہے جب محمد بن سعود نے موجودہ آل سعود حکومت کی تشکیل کی تھی جبکہ اس سے پہلے تک 1744 کے واقعے کا جشن منایا جاتا تھا جب آل سعودی حکومت کو وباہی نظریہ کے بانیوں میں شمار کئے جانے والے محمد عبد الوہاب کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔
یہی نہیں حالیہ دنوں میں ایک تبدیلی یہ بھی نظر آ رہی ہے کہ سعودی عرب میں ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر نماز نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
در ایں اثنا لندن میں تعینات سعودی سفیر خالد بن بندر بن سلطان نے بہت بڑا بیان دیا ہے۔
یقینی طور پر اتنا بڑا بیان انہوں نے ملک کی اعلی قیادت کے اشارے پر ہی دیا ہوگا۔
سعودی سفیر کچھ دن پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کے مہمان تھے، انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ سعودی عرب کی قیادت مذہبی نہیں ہے، اسے دوسرے قبائل کے شکست دینے کے نتیجے میں اقتدار ملا ہے۔
ان واقعات سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ سعودی قیادت خود کو مذہبی شناخت سے دور کر رہی ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے سعودی عرب پر یہ شدید الزامات ہیں کہ وہاں کی حکومت کی جانب سے حمایت یافتہ وہابی نظریہ ساری دنیا میں دہشت میں دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
ان بیانوں سے عرب دنیا میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس ملک کی کیا شکل ہوگی؟ کیا بن سلمان خادم الحرمین کے لقب سے بھی فاصلہ بنا لیں گے۔
سعودی سفیر نے کہا کہ سعودی عرب کی اقتدار کی قانونی حیثیت کا منبع مذہبی نظریات نہیں ہیں لیکن ہمارا ملک عالم اسلام کا مرکز ضرور ہے۔ ان کے بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سعودی قیادت عالم اسلام کا سربراہ بننے کے لئے کوشاں ہے۔
سعودی سفیر خالد بن بندر نے کہا کہ ہمارا کردار مذہبی قیادت کا کردار نہیں ہے لیکن ہم مسلمانوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے پاس اس کی توانائی بھی ہے۔