عراق میں سیاسی بحران نئے مرحلے میں داخل
عراق کی شیعہ سیاسی جماعتوں کی کوآرڈینیشن کمیٹی نے پارلیمانی کارروائی پارلیمنٹ سے باہر انجام دینے کے لیے کرد اور سنی سیاسی دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق شیعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے رہنما فاضل موات نے بتایا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس گرین زون سے باہر بلائے جانے کا امکان موجود ہے اور ہم اس سلسلے میں سنی اور کرد پارلیمانی اتحادوں کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاحال پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کے لیے جگہ کا تعین نہیں کیا گیا۔
شیعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی کونسلیں جس جگہ مناسب سمجھیں اجلاس بلاسکتی ہیں۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ اس بات کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ نئے صدر کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس سلیمانیہ یاکسی اور شہر میں بھی ہوسکتا ہے ۔
دوسری جانب الصدر تحریک نے کہا ہے کہ چونکہ باقی سیاسی جماعتوں نے کھلے مباحثے کی دعوت قبول نہیں کی ہے لہذا انہیں ہمارے اگلے اقدام کا انتظار کرنا چاہیے۔
الصدر تحریک کے سربراہ مقتدی الصدر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ تمام سیاسی دھڑوں کے درمیان کھلے مباحثے کا انتظام کرے ۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تجویز پرکسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے انہیں کوئی واضح جواب موصول نہیں ہوا۔
مقتدی صدر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ اس حوالے سے باالواسطہ موصول ہونے والے پیغامات بے سود ہیں اوران میں، بقول ان کے انقلابیوں اور عراقی عوام کے مطالبات شامل نہیں تھے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اہم مسائل کواہمیت نہیں دے رہی ہیں ، انکا کہنا تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اب ہمارے اگلے قدم کا انتظار کرنا چاہیے۔
مقتدی صدر کی جانب سے ملک کے سیاسی دھڑوں کو کھلے مباحثے کی دعوت کا معاملہ ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے کہ جب عراق کے عبوری وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے گزشتہ ہفتے سیاسی تعطل کو دور کرنے کے لیے کل جماعتی اجلاس بلایا تھا لیکن الصدر تحریک کے کسی بھی رہنما نے اس میں شرکت نہیں کی۔
عراق میں قبل ااز وقت پارلیمانی انتخابات اکتوبر دوہزار اکیس میں ہوئے تھے، لیکن سیاسی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے حکومت سازی کا عمل انجام نہیں پاسکا ہے۔
مبصرین کے مطابق عراق کو اس وقت سیاسی دانشمندی کی ضرورت ہے اور یہ کام پارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر، باہمی گفت و شنید کے بغیر ممکن نہیں ہے۔