نائیجیریا؛ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی برسی؛ فوج کی دہشتگردی کی ہولناک داستان
نائیجریا کے عوام نے جمعہ کے روز ابوجا اور ملک کے دوسرے شہروں میں 2015ء میں نائیجریا فوج کے ہاتھوں شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت میں مظاہرے کئے جس میں سینکڑوں افراد شہید ہوگئے تھے۔
سحرنیوز/عالم اسلام: غیر ملکی ذرائع کے مطابق جمعہ کے دن نائیجریا میں وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے 2015ء میں نایجیریا کی فوج کے ہاتھوں زاریا میں بقیۃ اللہ امام بارگاہ پر حملے اور شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی برسی کی مناسبت سے کئے تھے۔
مظاہرین نے بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر نائیجریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی کی خون آلود تصاویر، شیعہ بے گناہ اور معصوم افراد کی شہادت پر مذمتی بیانات درج تھے۔
زاریا بقیتہ اللہ امام بارگاہ میں زخمی ہونے والے ایک شخص محمد محمدی شاہد ابراہیم سوکوتو نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس قتل عام کے دن کیا ہوا تھا، میں ان واقعات کو یاد نہیں کرنا چاہتا، میں نے اس دن بچوں کو زندہ آگ میں جلتے دیکھا، میں نے دیکھا کہ خواتین زندہ آگ میں جلائی جا رہی ہیں، شیخ زکزاکی کےگھر میں بزرگوں کو زندہ آگ میں جھونک دیا گیا، میں نے انسانوں کے ٹکڑے جلتے دیکھ، میں اس دن ایک دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اور ہر طرف فوجی ادھر ادھر فائرنگ کرتے بھاگ رہے تھے، وہ زخمیوں کو مار رہے تھے اور اگر کوئی آگ سے نکلنے کی کوشش کرتا تو اسے گولیوں سے چھلنی کرکے قتل کر رہے تھے۔
2015ء کے قتل عام میں بچ جانے والے شاہد ابراہیم سوکوتو نے مزید بتایا کہ اس وقت ایک فوجی نے مجھے زندہ دیوار کے ساتھ کھڑا دیکھ کر پوچھا کہ تم ابھی تک نہیں مرے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ میری زندگی تمہارے ہاتھ میں نہیں، خدا کے ہاتھ میں ہے، یہ سن کر اس نے مجھے گولی مار دی۔ میں لاشوں کے درمیان گر گیا، فوجیوں نے ہمیں آگ لگا دی، میرا پورا جسم جل گیا، وہ لاشوں کو احمد بیلو ٹیچنگ یونیورسٹی ہسپتال لے گئے، وہاں پر ڈاکٹروں کو پتہ چلا کہ میں زندہ ہوں، مجھے نائجر لے جایا گیا، بعد میں مجھے علاج کےلئے ایران لایا گیا جہاں میں مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا۔
قتل عام کے اس گھناؤنے واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک اور شخص محمد ابوبکر نے بتایا کہ وہ 12 دسمبر 2015ء کو دوسرے بہت سے لوگوں کے ہمراہ زاریا میں تھا جب نائیجریا کی فوج نے علاقے کا محاصرہ کرتے ہوئے حملہ کر دیا اور عوام کا قتل عام کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم مسلح نہیں تھے ، مگر فوجی مسجد میں درآئے اور سب کو فائرنگ کرکے قتل کر ڈالا، مجھے آٹھ گولیاں لگیں، جب کچھ افراد زندہ بچ گئے تو بندوق کی سنگینوں سے انہیں مارنا شروع کیا، بہت سے افراد کو چھرے مار کر شہید کیا گیا، ہمیں مردہ خانے لے جایا گیا، جب انہیں پتہ چلا کہ میں زندہ ہوں تو دوبارہ چھروں سے ہمیں مارنا شروع کر دیا جس پر ہسپتال کے عملے نے احتجاج کرکے ہمیں بچایا۔