Dec ۱۷, ۲۰۲۲ ۲۰:۳۷ Asia/Tehran
  • سعودی عرب، اقلیتوں پر عرصہ حیات ہوا تنگ، بلڈوزر سے گھر اور دکانیں مسمار

سعودی عرب، قطیف کے شیعہ اکثریتی علاقے کے باشندوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے منصوبے پر تیزی سے عمل کر رہا ہے اور وہ شیعہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بے بنیاد الزامات اور بہانوں سے بلڈوزر سے گرا رہا ہے۔

سحر نیوز/ عالم اسلام: سعودی عرب کی آل سعود حکومت، شیعہ مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی میراث کو بھی تباہ کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت قطیف اور تاروت جزیرے میں واقع لوگوں کے اثاثے اور ملکیت کو قبضے میں لینے میں مصروف ہے۔ آل سعود حکومت نے قطیف کی تقسیم کے فیصلے کے بعد قطیف اور تاروت کو اپنے قبضے میں لینے اور لوگوں کی آمدنی کو کنٹرول کرنے کے لئے یہ کارروائیاں انجام دے رہا ہے۔ 

سعودی حکام نے تاروت جزیرے میں اثاثوں اور ملکیت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے، اسی طرح گوشت اور مچھلی کی دکانوں کے مالکوں کو دکانیں خالی کرنے کے لئے صرف دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ قطیف کے میونسپل کارپوریشن نے قطیف کے الدبیبیہ شہر کے دکان داروں اور مالکوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کے ڈاکیومنٹ اور دستاویزات لے کر بلدیہ کے دفتر میں حاضر ہوں تاکہ ان کا جائزہ لیا جائے۔

اس نوٹس کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا اور انہیں یہ خوف ستانے لگا کہ ان کے گھروں اور ان کی دکانوں پر بھی بلڈوزر چلنے والے ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ آل سعودی حکومت نے جاری سال کے آغاز میں شیعہ اکثریتی علاقے قطیف کو مقامی عوام کی خواہش کے برخلاف دو حصوں مشرقی اور مغربی علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ریاض نے اس شہر کے مغربی حصے کا نام البیضا رکھا ہے جبکہ مشرقی حصے کا نام قطیف ہی رکھا گیا ہے۔  

جب سے قطیف تقسیم ہوا ہے تب سے مغربی حصے یعنی البیضا کے بلدیہ کے سربراہ کو ایسے شخص کو معین کیا گیا جو اس علاقے سے ہزاروں کلومیٹر دور سے آتا ہے۔

طبیعی طور پر سعودی انتظامیہ نے دکانداروں کو ان کی دکانوں کے بدلے کوئی دوسری دکان دینے کی تجویز تک نہیں دی ہے جس کی وجہ سے مذکورہ خاندان آمدنی سے محروم ہو جائے گا۔

قطیف کے خلاف سعودی حکام کے تباہ کن پروگرام یہیں پر ختم نہيں ہوئے بلکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے حکومت کی جانب سے منظور منصوبے کے تحت دارین اور تاروت نامی جزیروں کی توسیع کا منصوبہ بنایا ہے۔

سعودی حکام کا دعوی ہے کہ اس توڑ پھوڑ کا مقصد ترقی ہے لیکن ثبوت اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ معاملہ کچھ اور ہی چل رہا ہے اور یہ توڑ پھوڑ مقامی شیعہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کی چال ہے۔

مقامی لوگوں کو پناہ گزین بنانا، سعودی عرب میں عوام سے مزاحمت کے حربے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جیسا کہ العوامیہ کے شہر المسورہ میں ہتھیار زور پر لوگوں سے ان کے گھر اور دکانیں خالی کرا لی گئیں۔

لوگوں کو اسلحے کی طاقت پر ڈرانے اور اس علاقے کو خالی کرانے کے لئے حکومت نے سارے راستوں کو بند کر دیا تھا اور سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا جس کی وجہ سے یہ علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔

سعودی انتظامیہ اس علاقے کے آبادی کے تانے بانے کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور دوسرے ممالک کے شہریوں کو ان شہروں میں آباد کرنا چاہتا ہے جبکہ سعودی عرب کی مجموعی شیعہ آبادی 10 سے 15 فیصد تک ہے جو زیادہ تر الشرقیہ صوبے میں رہتے ہیں۔

بہر حال سعودی عرب کے شیعہ مسلمان ایک بار پھر آل سعود حکومت کی سرکوبی کا سامنا کر رہے ہیں لیکن دنیا اب بھی اپنے کان میں تیل ڈالے بیھٹی ہے۔

 

بشکریہ

*مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*

 

ٹیگس