لبنان میں ہونے والے کسی بھی قتل کا بہت سخت جواب دیا جائے گا: سید حسن نصراللہ
سید حسن نصراللہ نے صیہونی حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی لبنانی، شامی یا فلسطینی شخصیت کو قتل کیا گیا تو مزاحمتی فورسز اس کا بہت سخت انداز میں جواب دیں گی۔
سحرنیوز/عالم اسلام: تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف الجرود کے علاقے میں فتح کی سالگره کی مناسبت سے اپنے خطاب میں کہا کہ تکفیروں کا ہدف الجرود کے علاقے پر قبضہ اور اسے داعش کی خلافت کے نقشے میں شامل کرنا تھا۔
سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ امریکہ نے لبنانی فوج کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے الجرود میں مسلح دہشت گردوں پر حملہ کیا تو امریکہ ان کی فوجی مدد روک لے گا۔
انہوں نے صیہونی حکومت سے مخاطب ہو کر کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ صیہونی فوج اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ نہ صیہونی فوج اور نہ صیہونی کابینہ نے مغربی کنارے میں اپنی شکست سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے صیہونیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ لبنان میں اگر کسی بھی لبنانی، ایرانی، فلسطینی یا شامی کو قتل کیا گیا تو اس کا بہت سخت جواب دیا جائے گا کیونکہ ہم اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ 2006ء کے بعد سے قائم ہونے والا توازن خراب ہو اور لبنان ایک بار پھر قتل کا میدان بنے۔
شام کی صورتحال کے حوالے سے سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جو کچھ شام میں ہو رہا ہے وہ امریکی منصوبہ ہے اور اس حوالے سے امریکہ کو بعض علاقائی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ داعش کے بہانے، عراق میں واپس آیا ہے اور وہ عراق اور شام میں التنف کے علاقے میں اپنی افواج تعینات کرنا چاہتا ہے جو اس کا ایک وہم ہے کیونکہ مزاحمتی فورسز ہرگز اس کی اجازت نہیں دیں گی۔
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اگر امریکہ اپنے بنائے دہشت گرد گروہوں کے ذریعے سے یہ کام کرنا چاہتا ہے تو ہم ان کا مقابلہ کریں گے لیکن اگر امریکہ ڈائریکٹ اس جنگ میں داخل ہونا چاہتا ہے تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے کیونکہ یہ واقعا وہی جنگ ہوگی جس کے بعد اس کے ہاتھ سے سارا توازن نکل جائے گا۔
سید حسن نصراللہ نے اربعین کے عظیم الشان اجتماع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین اور قدس کا مسئلہ بھی اس پیادہ روی کا مرکزی نقطہ ہے، اس حوالے سے اقصی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے اور عوام اس پیادہ روی کے دوران فلسطینی قیدیوں اور قدس کی تصاویر اٹھائے ہوئے ہیں اور یہ کام ہمارے عراقی بھائی انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں امام موسی صدر کے اغوا کی سالگرہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم امام موسی صدر کی راہ کو اپنی مزاحمت، مسئلہ فلسطین کے دفاع اور لبنان کو تقسیم نہ کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ جاری رکھیں گے۔