Apr ۱۵, ۲۰۱۹ ۱۵:۲۰ Asia/Tehran
  • منشور ’’انقلاب ِ اسلامی کا دوسرا مرحلہ‘‘  - (مکمل متن کا دوسرا حصہ)

رہبر مظلومین و محرومین جہان،علمدارِ ولایت سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نے ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں انقلاب اسلامی کے گذشتہ چالیس سالوں میں تیزی سے حاصل ہونے والے اہداف اور کامیابیوں کا ذکر اور عالمی طاقتوں کے اِس الٰہی انقلاب کو روکنے کے تمام  مذموم عزائم  کی مسلسل مختلف محاذوں پر ناکامی  کا ذکر فرماتے ہوئے اِس الہی اور مہدوی انقلاب کے مزید عالمی اور عظیم الشان اہداف کا ذکر فرمایا اور  پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد،اسلامی انقلاب کے دوسرے مرحلے می

دوسرا قدم یا انقلاب کا دوسرا مرحلہ کہ جو  عظیم الشان اہداف بالخصوص عالمی عدل و انصاف پر مبنی الہی حکومت کا قیام یعنی مہدوی حکومت کے لیے جدوجہد کرنا یعنی تمام انسانوں کو ظلم وستم سے نجات دینے والے  خدا کی آخری حجت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے لیے میدان ہموار کرنا اور آمادگی کرنا اور عالمی اسلامی  پاک و پاکیزہ تمدن کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے سے عبارت ہے۔ اِس بارے میں مزید آگاہی کے لیے ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای کے اِس عظیم الشان مختصر،حکیمانہ  اور جامع خطاب کا متن قارئین کی خدمت میں حاضر ہے ،ضرور مطالعہ کیجئے۔

قارئین محترم متن طولانی ہونے کے باعث ہم نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے،حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے

پہلا حصہ

ایک: سرزمینِ ایران کی مکمّل حفاظت اور امن و امان

انقلاب نے ملک کی مکمّل حفاظت، امن و امان، وحدت و ہم آہنگی اور دشمن کی طرف سے خطرے کی آماجگاہ بنی رہنے والی سرحدوں کی حفاظت کی ضمانت دی اور آٹھ سالہ جنگ میں اپنی فتح اور (عراق کی) بعثی حکومت اور اُس کے امریکی، یورپی اور مشرقی آقاؤں کی شکستِ فاش کا معجزہ رونما کر دیا۔

دو: معاشرتی، معاشی اور حیاتیاتی بنیادوں پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں مملکت کو آگے لے جانے والی مشینری

انقلاب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں پیشرفت، اور اِسی طرح حیاتیاتی، معاشی اور عمرانیاتی بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں مملکت کو آگے لے جانے والے محرِّک کا کردار ادا کیا کہ جس کے قابل فخر ثمرات روز بہ روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ علمی بنیادوں پر قائم ہزاروں تجارتی مراکز، ذرائع آمدورفت ، صنعت، توانائی، معدنیات، صحّت، زراعت اور پانی جیسے میدانوں میں ہزاروں ضروری اور بنیادی منصوبے، لاکھوں کی تعداد میں یونیورسٹیوں میں مشغول یا فارغ التحصیل افراد، ملک بھر میں پھیلی ہوئیں ہزاروں یونیورسٹیاں؛ اور ایٹمی ایندھن سائیکل، اسٹیم سیل، نینو ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی وغیرہ کے دنیا بھر میں پہلے نمبر کے دسیوں بڑے منصوبہ جات، تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات کا ساٹھ گُنا تک بڑھ جانا، صنعتی یونٹس میں دس گُنا اضافہ، مصنوعات کے معیار میں دس گُنا اضافہ، اسمبلنگ انڈسٹری کا مقامی انڈسٹری میں تبدیل ہوجانا؛ انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں، جیسے کہ دفاعی صنعت میں قابلِ دید ترقّی، میڈیکل کے حسّاس اور اہم شعبوں میں چکاچوند ترقّی اور اُن میں مرکزی اور مستند مقام تک آ پہنچنا اور اِن کے علاوہ ترقّی کی دوسری دسیوں مثالیں۔

یہ سب اُس اجتماعی احسّاس، ہر میدان میں اپنی شرکت اور اُس جذبے کا نتیجہ ہے جو انقلاب نے مُلک کو عطا کیا۔ انقلاب سے پہلے کا ایران، سائنس اور ٹیکنالوجی میں صِفر تھا۔ جو انڈسٹری میں سوائے اسمبلنگ کے اور سائنس میں سوائے ترجمے کے اور کوئی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔

تین: عوامی شرکت، اور (شہری) خدمات کی فراہمی کی دوڑ کو عروج تک پہنچانا

انقلاب نے سیاسی مسائل، جیسے کہ انتخابات، داخلی فتنوں سے مقابلے اور داخلی میدانوں سمیت استکبار سے مقابلے کے میدانوں میں عوام کی شرکت کو عروج پر پہنچا دیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے اور لوگوں کی بھَلائی کے لیے کام کرنے جیسے سماجی امور جو کہ انقلاب سے پہلے ہی شروع ہو چکے تھے، اُن کو حیران کُن حد تک وسعت بخشی۔ انقلاب کے بعد سے لوگ قدرتی آفات اور معاشرتی ضروریات میں خدمت کی دوڑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

چار:عوام کے سیاسی شعور میں حیرت انگیز ترقّی

انقلاب نے عوام کے سیاسی شعور اور بین الاقوامی معاملات پر اُن کی نگاہ کو حیرت انگیز حد تک ترقّی دی ہے۔ اُس نے مغرب خصوصاً امریکہ کے جرائم، فلسطین اور فلسطینیوں پر تاریخی ظلم و ستم کے مسئلے، مختلف ظالم و جابر حکومتوں کی دوسری اقوام کے امور میں مداخلت اور جنگ افروزیاں اور شرارت کرنے جیسے بین الاقوامی امور کے ادراک اور اُن کے سیاسی تجزیے کو روشن خیال نام کے ایک محدود اور (معاشرے سے) کنارہ کش طبقے سے نکال کر باہر رکھ دیا ہے۔ اور یوں روشن خیالی پورے ملک کے عوام میں اور زندگی کے تمام میدانوں میں پہنچ گئی اور اِس قسم کے مسائل، نوجوانوں، یہاں تک کہ بچوں کے لیے بھی قابلِ فہم ہو گئے۔

پانچ:ملک کے عوامی وسائل کی تقسیم میں انصاف کے پَلّے کو بھاری کرنا

انقلاب نے ملک کے عوامی وسائل کی تقسیم میں عدالت و انصاف کا نظام سخت کر دیا۔ مجھ حقیر کا ملک میں انصاف کی کارکردگی پر جو عدم اطمینان ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اِس قیمتی اور بے مثال قدر کو اسلامی جمہوریہ کے نظام کے ماتھے کے تاج کا بے مثال گوہر ہونا چاہئے تھا جو کہ ابھی تک نہیں ہے، لیکن میری اِس بات کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ملک میں انصاف کے قیام کے لیے ابھی تک سِرے سے کوئی اقدام ہوا ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ناانصافی اور بے عدالتی سے مقابلے کے جو ثمرات اِن چار دہائیوں میں ملے ہیں اُن کا دوسرے کسی بھی دورانیے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ طاغوتی دور میں ملک کی زیادہ تر آمدن اور وسائل، دارالحکومت میں رہنے والوں یا ملک کے دوسرے حصوں میں بسنے والے اُنہی جیسے افراد پر مشتمل ایک مختصر سے گروہ کے اختیار میں تھے۔ اکثر شہروں خصوصاً دورافتادہ علاقوں اور دیہاتوں کے لوگ تو فہرست کے آخر میں شمار کیئے جاتے تھے اور اکثر تو زندگی کی انتہائی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے بھی محروم تھے۔ اسلامی جمہوریہ کا شمار اُن کامیاب ترین حکومتوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے دولت اور عوامی خدمت کو مرکز سے نکال کر سارے ملک میں پھیلایا اور اشرافیہ نشین علاقوں سے نکال کر پسماندہ علاقوں تک پہنچایا۔ ملک کے دوردراز علاقوں تک سڑکوں اور گھروں کی تعمیر، صنعتی مراکز کا قیام، زرعی امور میں اصلاحات، پانی اور بجلی کی ترسیل، مراکزِ صحت کا قیام، یونیورسٹیاں، آبی بند اور توانائی کے مراکز ،کے بڑے اعداد و شمار حقیقت میں ہمارے لیے قابلِ فخر ہیں۔ یقیناً یہ ساری کی ساری کارکردگیاں نہ تو حکومتی عہدیداروں کی ناقص تشہیر سے عیاں ہوئی ہیں اور نا ہی داخلی اور خارجی بدخواہوں نے کبھی اِن کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن یہ سب موجود ہیں اور عوام اور خدا کے نزدیک، مجاہد اورمخلص انداز میں ملکی انتظامات چلانے والوں کے لیے حسنات ہیں۔ البتہ وہ عدل و انصاف جس کی اسلامی جمہوریہ کو توقع ہے کہ جس سے وہ مولا علیؑ کی حکومت کی پیروکار کے طور پر جانی جائے، وہ اِس سے کئی بہتر ہے اور اِس کے قیام کی امید آپ جوانوں سے ہے کہ جس کی میں آگے چل کر وضاحت کروں گا۔

چھ: معاشرے کی عمومی فضا میں روحانیت و اخلاق کی حیرت انگیز ترقّی

انقلاب نے معاشرے کی عمومی فضا میں روحانیت اور اخلاق کے معیار کو حیرت انگیز حد تک بڑھایا۔ اور اِس مبارک عمل کو سب سے زیادہ، خود امام خمینیؒ کے سلوک اور کردار ہی نے شاہی حکومت سے مقابلے کے دوران اور انقلاب کی کامیابی کے بعد رائج کیا۔ اُس معنوی، عارف اور مادی زینتوں سے پاک انسان نے ایسے ملک کی باگ ڈور سنبھالی کہ جس کے عوام کا ایمان کافی مضبوط اور گہرا تھا۔ اگرچہ پَہلَوی حکومت کے دوران فحاشی و فساد پر مشتمل مواد کی بے لگام تشہیر و ترویج نے اِس ایمان پر سخت ضرب لگائی اور مِڈل کلاس عوام بالخصوص جوانوں کو مغرب کی اخلاقی بے راہ رویوں کی دلدل میں دھکیل کر رکھ دیا تھا، لیکن اسلامی جمہوریہ کے اخلاقی و دینی رویے نے نورانی اور بیدار دلوں کو خصوصاً جوانوں کو اپنی طرف جذب کیا اور یوں پوری فضا دین و اخلاق کے حق میں تبدیل ہو گئی۔ جوانوں کا جہاد، دفاعِ مقدس جیسے کٹھن میدانوں میں ذکر، دعا، بھائی چارے اور ایثار کے احساس کے ساتھ مل گیا اور سب کی نگاہوں کے سامنے ابتدائے اسلام کے زمانے کا ماحول زندہ ہوگیا۔ باپ، ماؤں اور بیویوں نے دینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے جہاد کے مختلف محاذوں پر جانے والے اپنے عزیزوں کو اپنے دل سے جدا کیا اور پھر جب اُن کا خون آلود لاشہ یا زخمی جسم اُن کے سامنے واپس آیا تو اُنہوں نے اُس مصیبت پر شکر ادا کیا۔ مساجد اور دینی مقامات میں بے مثال رونق پیدا ہو گئی۔ اعتکاف کی صفیں، باری لینے والے ہزاروں جوانوں، استادوں، یونیورسٹی کے طلباء، عورتوں اور مردوں سے بھر گئیں۔ جہاد کے تربیتی دوروں پر جانے والوں کی صفیں ہزاروں رضاکار اور فداکار جوانوں سے بھر گئیں۔ نماز، حج، روزہ، پیدل زیارت، مختلف قسم کی دینی تقریبات، واجب اور مستحب صدقہ و خیرات کی سب جگہ خصوصاً جوانوں کے درمیان رونق بڑھ گئی اور آج تک پہلے کی نسبت اُن میں زیادہ وسعت اور ترقّی آچکی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے زمانے میں واقع ہوا ہے کہ جب مغرب اور اُس کے حواریوں کی روز بہ روز بڑھتی ہوئی اخلاقی برائیوں اورعورتوں اور مردوں کو اِس گمراہی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے اعلیٰ پیمانے پر تشہیر و ترویج نے دنیا کے ایک بڑے حصّے میں اخلاق و روحانیت کو زوال کا شکار کر دیا ہے۔ یہ انقلاب اور متحرّک و ترقّی یافتہ اسلامی نظام کا ایک اور معجزہ ہے۔

سات: دنیا کے بدمعاشوں، مستکبروں اور جابروں کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت

دنیا کے غنڈوں، جابروں اور مستکبروں سمیت اُن سب کے سرغنہ یعنی سامراجی جرائم پیشہ امریکہ کے خلاف رعب دار، باعظمت اور قابلِ فخر مزاحمت روز بروز شدّت اختیار کرتی گئی۔ اِن تمام چالیس سالوں میں کسی کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کرنا، انقلاب اور اُس کی الٰہی ہیبت و عظمت کی حفاظت اور پاسداری کرنا، متکبر اور مستکبر حکومتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونا، ایران اور ایرانی قوم بالخصوص اِس سرزمین کے جوانوں کی ایک واضح اور معروف خصوصیت رہی ہے۔ دنیا کی وہ قابض قوّتیں جن کی بقا کا دارومدار، دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کے لیے، اُن کے بنیادی منافع کو پائمال کرنے پر ہے، وہ انقلابی اور اسلامی ایران کے سامنے اپنی ناتوانی اور عجز کا اعتراف کر چکی ہیں۔ ایرانی قوم کے لیے انقلاب کی حیات بخش فضا میں ہی یہ ممکن ہوسکا کہ سب سے پہلے امریکہ کے پٹّھو اور ایرانی قوم سے غدّاری کرنے والے عنصر (یعنی شاہ) کو اِس ملک سے نکال باہر کرے اور اُس کے بعد آج تک اِس ملک پر اُن ظالم و جابر حکمرانوں کے تسلط کی پوری طاقت اور شدّت سے روک تھام کرے۔

چالیس سالہ انقلاب اور دوسرا بڑا قدم

عزیز جوانو! یہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کی چند اہم سرخیاں تھیں۔ وہ عظیم، پائیدار اور چمکتا ہوا انقلاب، جس کی ترقّی کے لیے اللہ کی مدد سے آپ کو اب دوسرا قدم اٹھانا ہوگا۔چالیس سالہ کوششوں کا ماحصل ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ایک ایسی مملکت اور قوم جو خودمختار، صاحب اقتدار، باعزّت، دینی اقدار کی پابند،علمی ترقّی کی حامل، بیش قیمت تجربات سے لیس، اطمینان اور امید سے بھرپور، خطّے میں گہرا اثر رکھنے والی اور عالمی امور میں طاقتور منطق کی حامل، سائنسی ترقّی کی رفتار میں پوزیشن ہولڈر، اِسی طرح ایٹمی، اسٹیم سیل، نینو، خلائی سائنس اور اس جیسی ٹیکنالوجیز اور سائنسی مہارتوں میں چوٹی کے مقامات میں ممتاز،سماجی خدمات کے پھیلاؤ میں ممتاز، جوانوں کے بیچ جہادی جذبے میں فائق، مفید جوانوں کی تعداد میں اور اِسی طرح کئی دیگر قابل فخر خصوصیات میں ممتاز ہے؛ یہ سب کا سب انقلاب کا ماحصل، انقلابی موقف اور جہادی (جدوجہد) اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔ اور جان لیں کہ اگر اِس چالیس سالہ تاریخ کے بعض ادوار میں انقلاب کے نعروں کی طرف عدم توجّہ اور انقلابی تحریکوں سے غفلت نہ برتی جاتی، جو کہ افسوس کے ساتھ برتی گئی اورجس کا نقصان بھی ہوا، تو بے شک اسلامی انقلاب کی برکات اِس سے کئی گُنا زیادہ ہوتیں اور ملک، عظیم اہداف کی طرف حرکت میں موجودہ مقام سے بہت آگے ہوتا اور بہت ساری موجودہ مشکلات نہ ہوتیں۔

اسلامی انقلاب کا اقتدار، مشکلات کی تبدیلی اور متکبروں کی شکست

صاحبِ اقتدار ایران کو آج بھی انقلاب کے شروع کی طرح مستکبروں کے مقابلے کا سامنا ہے، لیکن ایک بہت معنیٰ خیز فرق کے ساتھ۔ یعنی اگر پہلے امریکہ کے ساتھ ہمارا مقابلہ بیرونی کارندوں کی سرگرمیاں ختم کرنے یا تہران میں صہیونی سفارت خانے کے خاتمے یا جاسوسی کے اڈے کو فاش کرنے پر مبنی تھا، تو آج کا مقابلہ ، صہیونی سرحدوں پر طاقتور ایران کی موجودگی اور مغربی ایشیا سے امریکہ کے ناجائز تسلط کی بساط لپیٹنا، اسلامی جمہوریہ کی مقبوضہ سرزمینوں کے مرکز میں فلسطینی مجاہدوں کے جہاد کی حمایت، اور پورے خطّے میں حزب اللہ سمیت محاذِ مقاومت کے بلند پرچم کا دفاع کرنا ہے۔اگر اُن دنوں مغرب کا مسئلہ یہ تھا کہ ایران کی ابتدائی اسلحے کی خریداری میں رکاوٹ پیدا کرے تو آج اُس کا مسئلہ محاذِ مقاومت کو جدید ایرانی اسلحے کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ اگر اُس وقت امریکہ کا خیالِ خام یہ تھا کہ وہ چند ضمیر فروش ایرانیوں سمیت چند ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ذریعے اسلامی نظام اور ایرانی قوم پر چڑھائی کر لے گا، تو آج وہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف سیاسی اورحفاظتی امور میں مقابلے کی خاطر، خود کو دسیوں دشمن یا پھر مرعوب حکومتوں کے ایک بڑے اتّحاد کا محتاج پاتا ہے، لیکن آمنے سامنے ہونے کے بعد بھی شکست ہی کھاتا ہے۔آج ایران، انقلاب کی برکت سے دنیا والوں کی نظر میں ایک بلند اور ایرانی قوم کے شایان شان مقام پر فائز ہے اور اپنے بنیادی مسائل میں مشکل گھاٹیوں سے عبور کر چکا ہے۔

جوان؛ ترقّی یافتہ اسلامی نظام کے قیام کا محور

البتہ یہاں تک طے شدہ راہ، اسلامی جمہوریہ کے اعلیٰ مقاصد تک رسائی کے قابل فخر راستے کا صرف ایک ٹکڑا ہے۔ اس راستے کا تسلسل جس کا زیادہ امکان یہی ہے کہ پہلے کی طرح مشکل نہیں ہوگا، یقیناً آپ جوانوں کی ہمّت، ہوشیاری،عمل میں تیزرفتاری اور تخلیقی صلاحیت سے طے ہونا چاہیے۔ جوان منتظمین، جوان اہلکار، جوان دانشوروں اورجوان سماجی کارکنوں کو چاہیے کہ تمام تر سیاسی، معاشی، ثقافتی اور بین الاقوامی شعبوں سمیت دین، اخلاق، روحانیت اور عدالت کے میدانوں میں اپنے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ اٹھائیں۔ سابقہ تجربات اور عبرت آموز مثالوں سے فائدہ اٹھائیں۔ انقلابی نگاہ، انقلابی جذبے اور جہادی عمل کو کام میں لائیں اور پیارے (وطن) ایران کو ترقّی یافتہ اسلامی نظام کی ایک مکمل مثال بنا دیں۔

گہری اور خالص ایمانی اور دینی بنیاد کی حامل مستعد اور مفید افرادی قوّت؛ مملکت کی اہم ترین امید افزا صلاحیت

مستقبل کے معماروں کو جو اہم نکتہ پیش نظر رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی مملکت میں رہتے ہیں جو قدرتی اور انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے نادر ہے۔ اُن میں سے اکثر صلاحیتیں، (حکومتی) عہدیداروں کی غفلت کی وجہ سے یونہی ضائع ہورہی ہیں یا پھر اُن سے بہت کم استفادہ لیا گیا ہے۔ بلند ہمتیں اور تازہ دَم انقلابی جذبے اُن صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اِس طرح سے مملکت کی مادی اور روحانی ترقّی میں حقیقی معنوں میں ایک بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔مملکت کی اہم اور سب سے امید افزا صلاحیت، گہری اور اصلی ایمانی و دینی بنیاد کی حامل با استعداد اور کارآمد افرادی قوّت ہے۔ چالیس سال کی عمر سے نیچے کی جوان آبادی جس کا ایک اہم حصہ 80ء کی دہائی میں وجود میں آنے والی آبادی کی لہر کا نتیجہ ہے، مملکت کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔یہ پندرہ سے چالیس سال کی عمروں کے درمیان کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد، ایک لاکھ چالیس ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، سائنس اور انجینیئرنگ کے طلباءکی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسری پوزیشن، اورانقلابی سوچ کے ساتھ پھلتے پھولتے جوانوں کی کثیر تعداد جو مملکت کے لیے مجاہدانہ کوشش کے لیے تیار ہیں؛ اور محقق اور مفکر جوانوں کی قابل ذکر تعداد جو سائنسی، ثقافتی، صنعتی ایجادات کے سلسلے میں مصروف عمل ہیں، یہ ملک کا ایک عظیم سرمایہ ہیں جس کے ساتھ کسی بھی مادی سرمائے کا موازنہ ممکن نہیں۔

ملک کے مادی مواقع کی طولانی فہرست

اِن کے علاوہ ملک میں مادی مواقع کی ابھی ایک طویل فہرست ہے جسے کارآمد، پرجوش اور عقلمند منتظمین فعال کر کے اور اُن سے فائدہ اٹھا کر ملکی آمدن میں نمایاں ترقّی کی ایک چھلانگ لگا سکتے ہیں اور ملک کو دولت مند، بے نیازاور صحیح معنوں میں ایک پُراعتماد مملکت بنا سکتے ہیں اور موجودہ مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں۔ ایران، دنیا کی ایک فیصد آبادی کے ساتھ، دنیا کے سات فیصد معدنیاتی ذخائر کا مالک ہے۔ زیرزمین میں موجود عظیم ذخائر، مشرق و مغرب، شمال و جنوب میں ایک غیرمعمولی جغرافیائی پوزیشن، بڑی قومی منڈی، عظیم علاقائی منڈی سمیت ساٹھ کروڑ آبادی کے پندرہ ہمسایہ ممالک، لمبے سمندری ساحل، زرعی اور مختلف زرعی اور پھَلوں کی اجناس پر مشتمل پیداوار کی حامل زرخیز زمین، بڑی اور متنوع معیشت، یہ سب ملک کی صلاحیت کا ایک حصہ ہے۔ جبکہ کئی صلاحیتیں بِلا استعمال پڑے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایران غیر استعمال شدہ طبیعی اور افرادی صلاحیتوں کے حساب سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ بلاشبہہ آپ اہلِ ایمان اور محنتی جوان اِس بڑی خامی کو دور کر سکتے ہیں۔ ملکی ویژن کی دوسری دہائی کو، ماضی میں ہاتھ آئی چیزوں اور استفادہ نہ کی گئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے پر مرکوز رہنے کا زمانہ ہونا چاہیے اور ملک کی ترقّی کو ملکی معیشت اور قومی پیداوار کے شعبوں میں بھی آگے بڑھنا چاہیے۔

دوسرا قدم،عنوانات اوربنیادی تجاویز اور امید کے سائے میں مستقبل کی جانب رجائیت پسندانہ نظر

اب میں اپنےعزیز فرزندوں کو چندبنیادی عنوانات کے بارے میں کچھ نصائح کروں گا۔ یہ عنوانات علم و تحقیق، روحانیت و اخلاق، معیشت، بدعنوانی سے مقابلے اور انصاف، خودمختاری اور آزادی، قومی وقار،عالمی تعلقات اور دشمن کے ساتھ حدبندی، اور طرزِ زندگی پر مشتمل ہیں۔البتہ ہر چیز سے قبل میری پہلی نصیحت مستقبل کے بارے میں پرامید اور خوش بین رہنے کی ہے۔ تمام تالوں کی اس بنیادی چابی کے بغیرکوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ایک سچّی امید اورعینی حقائق کے مطابق بات ہے۔ میں نے ہمیشہ جھوٹی اور فریب دینے والی امیدوں سے دوری اختیار کی ہے۔ لیکن خود سمیت باقی سب کو بھی بے جا ناامیدی اور غیرحقیقی خوف سے منع کیا ہے اور کر رہا ہوں۔ اِن چالیس سالوں کے دوران اور ہمیشہ کی طرح اب بھی دشمن کی تشہیراتی اور ذرائع ابلاغ کی پالیسی اور فعّال منصوبوں میں سے ایک (منصوبہ) لوگوں کو، یہاں تک کہ ہمارے عہدیداروں اور حکام کو بھی مستقبل سے مایوس کرنا ہے۔ جھوٹی خبریں، غرض آلود تجزئیے، حقائق کو الٹا دکھانا، امید بخش مناظر کو چھپانا، چھوٹی خامیوں کو بڑا بنانا اور بڑی اچھائیوں کو چھوٹا دکھانا یا اُن کا انکار کرنا، ایرانی قوم کے دشمنوں کے ہزاروں صوتی، تصویری اور انٹرنیٹ چینلز کا ہمیشہ سے طرز عمل رہا ہے۔ البتہ اُن کے پیروکار ملک کے اندر بھی نظر آتے ہیں جو (ملکی) آزادی سے فائدہ اٹھا کر دشمن کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ جوانوں کو اِس تشہیراتی محاصرے کو توڑنے کے لیے آگے آگے رہنا ہے۔ خود میں اور دوسروں میں مستقبل کی امید کا پودا پروان چڑھائیں۔ خوف اور ناامیدی کو خود سے اور دوسروں سے بھگا دیں۔ یہ آپ کا پہلا اور بنیادی جہاد ہے۔ امید افروز علامات، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ ہوا، آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ انقلاب کی نشوونما اس کے جھڑاو سے کئی زیادہ ہے۔ ایماندار اور خادم دل اور ہاتھ، فسادیوں، خائنوں اور جیب کتروں کے ہاتھوں سے کئی زیادہ ہیں۔ دنیا ایرانی جوانوں کی استقامت اور خلاقیت کو بہت سے میدانوں میں احترام اور عزّت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اپنی قدر کریں اور خداداد طاقت سے مستقبل کی جانب چھلانگ لگائیں اور رزم سجا دیں۔

البتہ نصیحتیں یہ ہیں:

ایک: سائنس اور تحقیق

سائنس اور تحقیق ایک مملکت کی عزّت اور طاقت کا ایک واضح وسیلہ ہیں۔ دانائی کا دوسرا رُخ توانائی ہے۔ مغربی دنیا اپنے (سائنسی) علم کے زور پر ہی اپنے لیے دوسو سالہ طاقت، اقتدار اور اثرورسوخ فراہم کر پائی اور اخلاقی و اعتقادی بنیادوں میں مفلسی کے باوجود سائنس میں پیچھے رہ جانے والے معاشروں میں مغربی طرز زندگی کو ٹھونس کر اُن کی سیاست اور اقتصاد کی باگ ہاتھ میں لے لی ہے۔ ہم سائنس سے مغرب کی طرح غلط فائدہ اٹھانے کی بات نہیں کرتے، لیکن تاکید کے ساتھ ملکی ضرورت کے لیے سائنس کے چشموں کو اپنے یہاں نکالنے پر اصرار ضرور کرتے ہیں۔ الحمد للہ سائنس اور تحقیق میں ہماری قوم کی استعداد دنیا کی اوسط سے اوپر ہے۔ آج تقریباً دو دہائیاں ہو رہی ہیں کہ ملک میں ایک سائنسی احیا کا آغاز ہو چکا ہے جو عالمی مبصرین کی نظروں کو خیرہ کر دینے والی تیزی سے، یعنی دنیا کی سائنسی ترقّی کی متوسط رفتار سے ہم گیارہ گنا تیز رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری جو کامیابیاں اِس عرصے میں ہمیں دوسو سے زائد ممالک کے بیچ سولہویں نمبر پہ پہنچا چکی ہیں، اور بعض حسّاس اور نئے علمی شعبوں میں پہلے نمبر پہ لے آئی ہیں، عالمی مبصرین کے نزدیک حیرانی کا باعث ہیں۔ یہ سب اِس حال میں ہوا ہے کہ ہمارا ملک علمی اور اقتصادی پابندیوں سے دوچار تھا۔ ہم دشمن کے بنائے بہاو کے مخالف تیرنے کے باوجود بڑے بڑے مقامات حاصل کر چکے اور یہ ایک بڑی نعمت ہے جس کا دن رات شکر ادا کیا جانا چاہیئے۔

البتہ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ طے شدہ راستہ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود، ایک آغاز کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم ابھی عالمی علم کی چوٹیوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں چوٹیوں تک پہنچنا ہے۔ ضروری ہے کہ اہم ترین شعبہ جات میں علم کی موجودہ حدود سے آگے بڑھا جائے۔ ابھی بھی ہم اُس مرحلے سے بہت پیچھے ہیں۔ ہم نے صفر سے شروع کیا ہے۔ پہلَوی اور قاجاری ادوار کی شرمناک علمی پسماندگی، جبکہ عالمی سائنسی دوڑ تازہ ہی شروع ہوئی تھی، نے ہم پر کاری ضرب لگائی تھی اور ہمیں اِس تیز رو قافلے سے کئی میل پیچھے دھکیل دیا تھا۔ ہم نے ابھی سفر کا آغاز کیا ہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اِس تیزی کو سالوں تک اِسی شدّت سے جاری رہنا چاہیئے تاکہ اُس پسماندگی کا ازالہ ہو سکے۔ میں نے مسلسل یونیورسٹیوں اور اُن کے طلباء اور محققین اورتحقیقی مراکز سے پرجوش، صریح اور قطعی انداز میں اِس معاملے میں یہی تذکرہ، انتباہ اورمطالبہ کیا ہے۔ لیکن اب آپ جوانوں سے میرا عمومی مطالبہ یہی ہے کہ اِس راستے کو مزید ذمہ داری کے ساتھ اور ایک جہاد کی مانند آگے بڑھائیں۔ ملک میں ایک سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور یہ انقلاب ایٹمی توانائی کے شہداء کے علاوہ کئی دیگر شہداء بھی دے چکا ہے۔ اٹھ کھڑے ہوجائیں اور آپ کی سائنسی جدوجہد سے شدّت سے پریشان اپنے بدخواہ اور کینہ توز دشمن کو ناکام بنائیں۔

دو: روحانیت اور اخلاق

روحانیت یعنی روحانی اقدار، جیسے کہ اخلاص، ایثار، توکّل، خود اور اپنے معاشرے پر اعتماد کو نمایاں کرنا۔ اور اخلاق یعنی خیرخواہی، درگزر، محتاجوں کی مدد، سچ بولنے، بہادری،عجز و انکساری، خوداعتمادی، اور دوسری اچھی اخلاقی خوبیوں کا خیال رکھنا۔ روحانیت اور اخلاق سبھی انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں اور اعمال کو سِمت دینے والی چیزیں ہیں اور معاشرے کی بنیادی ضرورت ہیں۔ اِن کا ہونا زندگی کے ماحول کو مادی وسائل کی کمی کے باوجود جنّت بنا دیتا ہے اور اِنہی کا نہ ہونا مادّی وسائل کی موجودگی کے باوجود، زندگی کو جہنّم بنا دیتا ہے۔معاشرے میں روحانی شعور اور اخلاقی احسّاس جتنا ترقّی پاتا ہے اُتنی برکتیں لاتا ہے۔ یہ بات بے شک کوشش اور جدوجہد کی محتاج ہے۔ اور یہ کوشش اور جدوجہد،حکومتوں کی پشت پناہی کے بغیر چنداں موثر نہیں ہے۔ اگرچہ روحانیت اور اخلاق حکم اور فرمان جاری کرنے سے حاصل نہیں ہوتا چنانچہ حکومتیں بھی اس کو طاقت اور جبر سے پیدا نہیں کر سکتیں۔ البتہ اُن کو چاہئے کہ پہلے خود اخلاقی اور روحانی طریقے اورروش پر کاربند ہوں اور پھر معاشرے میں ایسے ماحول کے لیے زمینہ ہموار کریں اور معاشرتی اداروں کو اِس بارے میں میدان فراہم کریں اور اُن کی مدد کریں؛ تب جا کر اخلاق اور روحانیت کے مخلاف گروہوں سے معقول انداز میں مقابلہ کریں اور مختصر یہ کہ جہنّمی لوگوں کو یہ مجال نہ دیں کہ وہ دوسروں کو بھی زبردستی اور دھوکے سے جہنّمی بنا دیں۔

ترقّی یافتہ اور جدید ذرائع ابلاغ نے روحانیت اور اخلاق کے مخالفوں کے ہاتھ میں بہت خطرناک وسائل تھما دیئے ہیں اور آج ہم دشمنوں کے حملوں کو جوانوں، نوجوانوں، یہاں تک کہ بچّوں کے پاکیزہ دلوں پر اُن وسائل کے ذریعے، اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حکومتی ذمہ دار ادارے اس بارے میں بھاری فرائض کے ذمہ دار ہیں جنہیں سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ ادا ہونا چاہئے۔ لیکن اِس کا مطلب غیر حکومتی افراد اور اداروں پر سے ذمہ داری کا اٹھ جانا ہرگز نہیں ہے۔ آنے والے دور میں اِس حوالے سے، قلیل مدّت اور درمیانی مدّت کے معاشرتی منصوبوں کو مرتّب اور اجرا کیا جانا چاہئے؛ اِن شاء اللہ۔

تین: معیشت

معیشت ایک بنیادی اور فیصلہ کُن عنصر ہے۔ مضبوط معیشت، ملک میں (بیرونی) اثرو رسوخ اورطاقت کی عدم قبولیت کا عامل ہے اور ایک مثبت عنصر ہے۔ اور کمزور معیشت منفی عنصر ہے اوردشمنوں کے نفوذ اور دخل کا موقع فراہم کرتا ہے۔ غربت اور دولت، انسان کی مادیات اور روحانیات میں اثر رکھتی ہیں۔ البتہ اسلامی معاشرے کا اصل مقصد معیشت نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک وسیلہ ضرور ہے جس کے بغیر اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ملک کی مستقل معیشت کی مضبوطی پر تاکید، جو کہ زیادہ اور اچھی پیداوار، عادلانہ تقسیم، اور ضروری اور اسراف سے پاک استعمال اورعقلمندانہ انتظام کی مناسبت پر مبنی ہے، اور انہی چند سالوں میں جو یہ بات میری طرف سے کئی مرتبہ تکرار ہوئی اور اس پر تاکید رہی ہے، اسی لیے کہ معیشت آج اور آنے والے کل میں معاشرے کی زندگی پر اعلیٰ اثر ڈال سکتی ہے۔

اسلامی انقلاب نے ہمیں طاغوت کے زمانے کے کمزور،غیر مستقل اور فسادی معیشت سے نجات کا راستہ دکھایا لیکن ہلکی کارکردگیوں نے ملکی معیشت کو اندر اور باہر سے چیلنجز سے دوچار کردیا۔ بیرونی چیلنج، پابندیاں اور دشمن کے وسوسے ہیں، جو اندرونی مسئلے کی اصلاح کی صورت میں (وہ بیرونی چیلنجز بھی) کم اثر، یہاں تک کہ بے اثر ہو سکتے ہیں۔ اندرونی چیلنج، بناوٹی کمزوریوں اور انتظامی خامیوں پر مشتمل ہے۔

اہم ترین خامیاں، تیل پرمنحصر معیشت، اقتصاد کے بعض شعبوں کا حکومت کے اختیار میں ہونا حالانکہ حکومتی دائرے میں نہیں ہیں، اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں کے بجائے باہر کی جانب نظر رکھنا، ملک کی افرادی قوّت کی صلاحیتوں سے کم فائدہ اٹھانا، ناقص اور نامتوازن بجٹنگ، اور آخرکار معیشت کی عملی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونا اور ترجیحات کا خیال نہ رکھنا، اور بعض حکومتی اداروں میں اضافی یہاں تک کہ اسراف پر مبنی اخراجات ہیں۔ اِن سب کا نتیجہ، عوام کی زندگی میں مشکلات (پیدا کرنا) ہے، جیسے کہ جوانوں کی بے روزگاری، غریب طبقے کی کم تنخواہیں وغیرہ۔

اِن مشکلات کا حل اقتصادِ مقاومتی کی حکمت عملی ہے، جس کے تمام حصوں کے لیے عملی منصوبہ جات مہیا کیئے جانے چاہئیں اور حکومتوں میں قوّت، نشاط اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اِن کی اتباع اور نفاذ ہونا چاہیے۔ ملکی معیشت کو اندرونی رشد، اور پیداواری ہونے کے ساتھ علمی بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے، اقتصاد کا عوامی کیا جانا اور صرف حکومت کے ذمے نہ کرنا، اور اُن صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے جن کی طرف پہلے اشارہ ہوا، باہر ملک کی طرف رجحان رکھنا۔ (اقتصادِ مقاومتی کی) تدابیر کے اہم حصّے ہیں۔ بلاشبہ حکومت کے اندر موجود ایک جوان، سمجھدار، مؤمن، اور معاشی مہارتوں کا ماہر گروہ یقیناً اِن مقاصد تک پہنچ جائے گا۔ آنے والا دوراِس طرح کے گروہ کی کارکردگی کا میدان قرار پانا چاہئے۔

پورے ملک کے جوان یہ جان لیں کہ تمام راہِ حل ملک کے اندر ہی ہیں۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ معیشتی مسائل صرف پابندیوں کی وجہ سے ہیں اور پابندیاں بھی متکبروں سے مقابلے اور دشمن کے سامنے نہ جھکنے کی وجہ سے لگی ہیں، لہذا اِس کا حل دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنا اور بھیڑئیے کے پنجے پر بوسہ لگانا ہے؛ یہ ایک ناقابل معافی خطا ہے۔ یہ سراسر غلط تجزیہ، اگرچہ کچھ اندرونی غافلوں کی زبان اور قلم سے بھی سرزد ہوجاتا ہے، لیکن اِس کی جڑ باہر کی وہ فکرگاہیں (تھِنک ٹینکس) اور سازش کے مراکز ہیں، جو سو زبانوں میں (ترجمہ ہوکر) پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں اورعوامی افکار میں ٹھونسا جاتا ہے۔

چار: کرپشن کا مقابلہ، اور عدل و انصاف

کرپشن کا مقابلہ، اور عدل و انصاف؛ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ معاشی، سیاسی اور اخلاقی فساد، نظاموں اور ملکوں کے لیے غلاظت کا انبار ہے اور اگر یہ حکومتوں کے وجود پر آ لگے تو اُن کی مشروعیت (یعنی قانونیت) کے لیے مہلک اور تباہ کُن زلزلہ ہے۔ اور یہ چیز اسلامی جمہوریہ کے لیے، کہ جسے رائج مقبولیتوں سے ماوراء اور عوامی مقبولیت سے زیادہ بنیادی مشروعیت (یعنی دینی مشروعیت) کی ضرورت ہے، دوسرے نظاموں کی بنسبت نہایت اہم اور بنیادی ہے۔ مال، مقام اور اقتدار کا وسوسہ یہاں تک کہ تاریخ کی علوی ترین حکومت یعنی خود حضرت امیرالمومنین(ع) کی حکومت میں بھی بعض کو پھِسلا گیا، لہذا اسلامی جمہوریہ میں بھی جہاں کبھی حکمران اور عہدیدار افراد، انقلابی زہد اور سادہ زندگی کی دوڑ لگاتے تھے، اِس خطرے کا واقع ہونا ہرگز بعید نہ تھا اور نہ اب ہے۔ اور اِسی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک کارآمد ادارہ تیز نظروں اور کٹیلے انداز کے ساتھ تینوں مقتدر قوّتوں (انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ) میں ہمیشہ حاضر رہے اور حقیقی معنوں میں فساد (اور کرپشن) کا مقابلہ کرے، بالخصوص حکومتی اداروں کے اندر۔

البتہ اسلامی جمہوری حکومت کے کارکنوں کے درمیان کرپشن کی شرح دوسری بہت سی مملکتوں خصوصاً طاغوتی حکومت کی نسبت جو سراسر فساد اور فساد پرور تھی، بہت کم ہے ۔اور الحمد للہ اِس نظام کےعہدیداروں نے زیادہ تر اپنی حفاظت کی ہے۔ لیکن جتنی بھی ہو، ناقابل قبول ہے۔ سب کو جان لینا چاہیے کہ معاشی پاکیزگی، اسلامی جمہوریہ کے سبھی عہدیداروں کی قانونیت کی شرط ہے۔ اُن سب کو چاہیے کہ لالچ کے شیطان سے بچیں اور حرام لقمے سے اجتناب کریں اور اِس میں خدا سے مدد مانگیں اور حکومتی نظارتی ادارے سختی اور حسّاسیت کے ساتھ کرپشن کے نطفے کی پیدائش اور اُس کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ لڑیں۔ یہ جنگ مؤمن اور مجاہد، پاک ہاتھوں اور نورانی دلوں والے پاک طینت انسانوں کی محتاج ہے۔ یہ جنگ اسلامی جمہوری نظام کی قیامِ عدل کی ہمہ جہتی کوشش کا ایک موثر حصہ ہے، جو اُسے اپنانی چاہیے۔

عدل و انصاف تمام الٰہی بعثتوں کے ابتدائی اہداف کی شروعات ہے اور اسلامی جمہوریہ میں بھی اُسی شان و مقام کا حامل ہے۔ یہ لفظ تمام زمانوں اور سرزمینوں میں مقدس ہے اور سوائے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی حکومت کے مکمل ترین صورت میں (اِس کا نفاذ) ممکن نہیں۔ لیکن نِسبی لحاظ سے ہرجگہ اور ہر وقت نہ صرف ممکن ہے بلکہ سب کا، بالخصوص حکام اور صاحبانِ اقتدار کا فریضہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اِس حوالے سے بڑے قدم اٹھائے ہیں جن کی طرف پہلے مختصر سا اشارہ ہوا۔ البتہ اِس کی وضاحت اور تشریح کے لیے مزید کام انجام پانے چاہئیں (تا کہ اس ذریعے سے) الٹا دکھلانے یا خاموشی اور پردہ پوشی کی سازش ناکام ہوجائے، جو کہ آج انقلاب کے دشمنوں کا ٹھوس منصوبہ ہے۔

اِس سب کے باوجود، میں عزیز جوانوں، کہ ملک کا مستقبل جن کا منتظر ہے، کو صراحت سے کہہ رہا ہوں کہ جو آج تک ہوا اور جو ہونا چاہئے تھا اور وہ جو اب ہونا چاہئے، (اِن تینوں) میں گہرا فاصلہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں عہدیداروں کا دل ہمیشہ محرومیوں کو دور کرنے کے لیے دھڑکنا چاہیے اور گہری طبقاتی دراڑوں پر انہیں نہایت فکرمند رہنا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ میں دولت کمانا نہ صرف جرم نہیں بلکہ اُس کی ترغیب بھی کی جاتی ہے لیکن عوامی ذخائر کی تقسیم میں جانبداری کرنا اور ہتھیانے کے میدان کھولنا اور معاشی دھوکے بازوں کے ساتھ نرمی اختیار کرنا سختی سے منع ہے؛ (کیونکہ) اِن سب کا انجام ناانصافی ہے۔ اِسی طرح، مدد کے محتاج طبقات سے غفلت کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہ باتیں پالیسیوں اور قوانین کی شکل میں کئی دفعہ دوہرائی گئیں لیکن اِن کے درست نفاذ کی خاطر امید کی نظریں آپ جوانوں پر ہیں۔ اور اگر مملکت کے مختلف حصّوں کے انتظام کی باگ مؤمن، انقلابی، سمجھدار اور دانشور جوانوں کو تھما دی جائے، جن کی تعداد الحمد للہ کم بھی نہیں، تو یہ امید پوری ہو جائے گی، ان شاء اللہ۔

پانچ: خودمختاری اور آزادی

خودمختاری اور آزادی: قومی خودمختاری یعنی عالمی جابر قوّتوں کے دباؤ اور غنڈا گردی سے قوم اور حکومت کی آزادی۔ نیز سماجی آزادی یعنی معاشرے کے تمام افراد کے لیے فیصلہ کرنے، عمل کرنے اور سوچنے کی آزادی (کا فراہم ہونا)۔ اور یہ دونوں اسلامی اقدار میں سے ہیں، اور انسانوں کو خدا کا تحفہ ہیں۔ اور اِن (دونوں) میں سے کوئی بھی لوگوں پر حکومتوں کا احسان نہیں ہے۔ اِن دونوں کی فراہمی، حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آزادی اور خودمختاری کی قیمت وہ لوگ بہتر جانتے ہیں جو اُن کے حصول کے لیے لڑے ہیں۔ ایرانی قوم اپنے چالیس سالہ جہاد کی بدولت اُنہی (لوگوں) میں سے ہے۔ آج کے اسلامی ایران کی آزادی اور خودمختاری لاکھوں ہزاروں عظیم، بہادر اور فداکار انسانوں کے ہاتھوں (کی محنت) بلکہ اُن کے خون کا حاصل ہے جوکہ اکثر جوان تھے، لیکن سبھی، انسانیت کے بلند مقام پر فائز تھے۔

انقلاب کے شجرہ طیبہ کے اِس پھل کو سادہ لوح بلکہ بعض اوقات مفادپرستانہ تاویلات و توجہیات کے ذریعے خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ سب کے سب اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ کی حکومت اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اِس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ واضح ہے کہ خودمختاری، ملک کی معاشیات اور سیاسیات کو اپنی ہی سرحدوں میں قیدی بنانے کے معنی میں ہرگز نہیں؛ اور آزادی کی تعریف، اخلاق، قانون، اِلٰہی اقدار اور قانونِ عامہ کے برخلاف نہیں ہونی چاہئے۔

چھ: قومی وقار، بین الاقوامی تعلقات اور دشمن کے ساتھ حدبندی

قومی وقار، بیرونی روابط، دشمن کے ساتھ حد بندی ۔ یہ تینوں بین الاقوامی تعلقات میں «عزّت، حکمت، مصلحت» کے اصول کی شاخیں ہیں۔ آج دنیا ایسے واقعات کی گواہ ہے جو وقوع پذیر ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں، (جیسا کہ) امریکہ اور صہیونیت کی جارحیت کے خلاف مقاومت کی بنیاد پر تحریکِ بیداریِ اسلامی کی نئی لہر؛ مغربی ایشیا میں امریکی پالیسیوں کی شکست اور اُن کے خائن ساتھیوں کا اِس خطّے میں زمین چاٹنا؛ اسلامی جمہوریہ کی مغربی ایشیا میں طاقتور سیاسی موجودگی اور پوری استعماری دنیا میں اُس کا وسیع انعکاس۔

یہ اسلامی جمہوریہ کی عزّت کی بعض جھلکیاں ہیں جو مجاہد منتظمین کی بہادری اور سمجھداری کے بغیر نمایاں نہ ہوپاتیں۔ استعماری نظام کے سربراہان پریشان ہیں۔ اُن کی تجاویز عموما ًدھوکا، فریب اور چالاکی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ آج ایرانی قوم، ظالم امریکہ کے علاوہ یورپی حکومتوں کی ایک تعداد کو بھی دھوکے باز اور ناقابلِ اعتماد مانتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کو چاہئے کہ اُن کے ساتھ بھی اپنی حدبندی کو باریکی کے ساتھ محفوظ رکھے۔ اپنی قومی اور انقلابی اقدار سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹے۔ اُن کی گیدڑ بھبکیوں سے نہ ڈرے۔ اور اپنی قوم اور ملّت کے وقار کو ہر حال میں مدِّ نظر رکھے۔ سنجیدگی اور مصلحت اندیشی کے ذریعے البتہ انقلابی رویّے کے ساتھ، اُن کے ساتھ اپنے مسائل حل کرے۔ امریکہ کے ساتھ کسی مسئلے کا حل قابلِ تصوّر نہیں ہے اور اُس کے ساتھ مذاکرات کا سوائے مادی اور روحانی نقصان کے اور کوئی نتیجہ نہیں۔

سات: طرزِ زندگی

طرزِ زندگی؛ اِس بارے میں ضروری باتیں بہت سی ہیں۔ جنہیں میں دوسرے کسی موقع کے لیے چھوڑتا ہوں اور صرف اِسی جملے پر اکتفا کرتا ہوں کہ مغرب کی ایران میں مغربی طرز زندگی کی ترویج کی کوششوں نے ہماری قوم اور ملّت کو ناقابل تلافی اخلاقی، معاشی، دینی اور سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔ اُس سے مقابلہ ایک ہمہ جہت اور دانشورانہ جہاد کا متقاضی ہے؛ کہ جس میں امید کی نگاہ پھر بھی آپ جوانوں کی طرف ہی اٹھتی ہے۔

آخر میں بائیس بہمن (یعنی یومِ انقلاب) اور عظیم اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ (کی ریلیوں) میں اِس عزیز قوم کی باوقار، قابل فخر اور دشمن شکن حاضری کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور حضرتِ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر کے لیے سر جھکاتا ہوں۔

سلام ہو حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ پر۔

سلام ہو والا مقام شہداء کی پاک ارواح اورعظیم الشان امامؒ کی روحِ مُطَہَّر پر۔

اور سلام ہو ایران کی صاحبِ عزّت قوم اور خصوصا ًجوانوں پر

آپ کے لیے دعا گو

سید علی خامنہ ای11 ؍ فروری 2019؁ء

ٹیگس