صیہونی حکومت کی بوکھلاہٹ پر عبدالباری عطوان کا تجزیئہ
اسرائیل کی موجودہ حالت کو کسی بھی طور عقلمندی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ اسرائیل کی سیراسیمگی اور گھبراہٹ ہے جو ظاہر ہورہی ہے ،اس کی اس کیفیت کے پچھے ایک طرف تو اسرائیل کے اندر پرواز کرتا ہوا وہ ڈرون طیارہ ہے تو دوسری جانب شام کے قدرے پرانے طرز کے ایک میزائل کے توسط سے اسرائیل جدید ایف سولہ کو مارگرانا ہے
معروف عرب تجزئہ کار عبدالباری عطوان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی میڈیا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایران کے ساتھ اسرائیل کے ٹکراو کے وقت کی سوئی ٹک ٹک کررہی ہے ۔
انہوں نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ اسرائیلوں کو شام میں ایران کی موجودگی کھائے جارہی ہے اور کسی بھی طور پر شام میں ایران یا ایرانی ممکنہ اڈوں کی موجودگی کو ناقابل برداشت کہتے ہیں ۔
اسرائیلی وزیروں کا کہنا ہے کہ مزاحمتی بلاک کے اتحاد کو توڑنا ضروری ہے ،تعمیرات اور ہاؤسنگ کے وزیر یوو گیلنٹنٹ کا کھلے لفظوں کہنا ہے کہ’’ایران شام اور حزب اللہ کے اکھٹ کو ختم کرنا ضروری ہے ‘‘
اسرائیل کی موجودہ حالت کو کسی بھی طور عقلمندی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ اسرائیل کی سیراسیمگی اور گھبراہٹ ہے جو ظاہر ہورہی ہے ،اس کی اس کیفیت کے پچھے ایک طرف تو اسرائیل کے اندر پرواز کرتا ہوا وہ ڈرون طیارہ ہے تو دوسری جانب شام کے قدرے پرانے طرز کے ایک میزائل کے توسط سے اسرائیل جدید ایف سولہ کو مارگرانا ہے۔
آخر ایران شام سے کیوں چلاجائے؟ کیا ایران نے شام پر حملہ کرکے قبضہ جمایا ہوا ہے کہ وہ چلاجائے گا؟ یہ شام کی منتخب حکومت ہے کہ جس نے ایران سے مدد طلب کی ہوئی ہے اور ایران اگر وہاں موجود ہے بھی تو شام کی حکومت کی دعوت پر۔
اسی طرح لبنان کی حزب اللہ بھی وہاں پر حکومت کی دعوت پر ان کی مدد کے لئے موجود ہے اور اس نے بھی شام کو امریکی اسرائیلی سازش سے بچانے میں مدد فراہم کی ہے ۔
اگر ہم اسرائیلی میڈیا اور بعض سرکاری افراد کی باتوں کو لیکر فرض کرتے ہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کا وقت قریب آچکا ہے اور سوئی ٹک ٹک کرتے آگے بڑھ رہی ہے تو سب اہم سوال یہ ہے کہ یہ جنگ کیسے اور کہاں ہوگی ؟
الف:اسرائیل اڑ کر ایران چلاجائے اور ایران کے انفرااسٹکچر اور عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنائے
ب:یہ جنگ شام اور لبنان میں ہوجو ایرانی اہم اتحادی شمار ہوتے ہیں
پہلا آپشن بالکل بھی قابل عمل نہیں ہوگا کیونکہ ایران اسرائیل سے قریب دوہزار میل کے فاصلے پر ہے
اور اگر اسرائیل ایسا کرسکتا تھا تو اب تک کرچکا ہوتا ،لہذا دوسرا آپشن زیادہ ممکن ہوتا دیکھائی دیتا ہے
لیکن اس میں بھی اسرائیل کے سامنے بڑے چلینجزاور خطرات موجود ہیں۔ اس بات ہی سے انداز ہ لگالیجئے کہ اگر 350ڈالر مالیت کے ایرانی ڈورن طیارے کی کو اپنی فضا میں دیکھنے کئ بعد اسرائیل نے بن گورین ائرپورٹ کو بند کردیا تھا حیفا اور تل ابیب میں پناگاہوں کے دورازے کھول دیے گئے تھے تو اس وقت کیا صورتحال ہوگی جب بارش کی طرح لبنان شام غزہ اور ایران سے میزائلوں کا رخ اسرائیلی شہروں کی جانب ہوگا ؟
شام کی فوج گذشتہ ان چند سالوں میں فنون حرب میں بڑی مہارت حاصل کرچکی ہے وہ اس وقت کسی بھی قسم کی بڑی جنگ کے لئے تیار دیکھائی دیتی ہے ۔
یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ ایران کو شام میں کسی قسم کے اڈے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں پورا کا پورا شام اس کے لئے کھلا ہوا ہے اور شام میں بہت سے ایسے فائٹرز موجود ہیں جوقبلہ اول کے غاصب اسرائیل سے لڑنے کے لئے بیتاب ہیں ۔