May ۳۰, ۲۰۱۸ ۱۳:۲۳ Asia/Tehran
  • جب نمازیوں پر گولیاں برسنے لگیں

اچانک ایک صیہونی شدت پسند حضرت ابراہیم ع کے مزار میں داخل ہوا اور اس نے اپنی خودکار مشین گن سے نمازیوں اور زائرین پر گولیاں برسا دیں۔ تنگ جگہ، نکلنے کے متعدد راستے نہ ہونے اور گولیوں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ایک بڑی تعداد زمین پر گر گئی

یہ ۲۵ فروری ۱۹۹۴ کی بات ہے عالم اسلام خداوند متعال کے رحمتوں بھرے مہینے رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں عبادتوں میں مشغول تھے۔ فلسطینی شہری بھی مقبوضہ بیت المقدس کے مختلف مقامات میں عبادتوں میں مصروف نظر آرہے تھے۔

ایسے میں الخلیل میں واقع حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزار پر بھی مسلمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اور فلسطینی مسلمانوں کی حتی الامکان کوشش تھی کہ خدا کے اس برگذیدہ نبی کے مزار کے نزدیک اپنی عباتوں کو انجام دیں۔

 

 

لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ دن عالم اسلام کے دل میں خنجر کے زخ سے بھی گہرا زخم چھوڑ جائے گا اور آج کے بعد مسلمانان عالم اس دن کو یاد کر کر کے اپنی بے بسی اور بے چارگی کا رونا روئیں گے۔ 

اچانک ایک صیہونی شدت پسند حضرت ابراہیم ع کے مزار میں داخل ہوا اور اس نے اپنی خودکار مشین گن سے نمازیوں اور زائرین پر گولیاں برسا دیں۔ تنگ جگہ، نکلنے کے متعدد راستے نہ ہونے اور گولیوں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ایک بڑی تعداد زمین پر گر گئی۔

 

 

ایک اندازے کے مطابق تقریبا تیس افراد شہید اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ عینی شاہدین نے بعد میں بتایا کہ حملہ آور کا ہدف زیادہ سے زیادہ افراد کی جان لینا تھا۔ 

اتنی بڑی تعداد میں روزہ داروں کی شہادت کی وجہ سے پورا عالم اسلام سوگ میں دوب گیا۔ فلسطین میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ وسیع پیمانے پر جھڑپوں کا بھی آغاز ہوگیا جس کی وجہ سے نام نہاد سازشی مذاکرات کا عمل بھی ایک لمبے عرصے تک کے لئے روک دیا گیا۔ 

 

ٹیگس