پاکستان: پاناما کیس کی سماعت مکمل فیصلہ محفوظ
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے جوابی دلائل مکمل کرلئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر ریمارکس دیئے کہ یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے، کیس کے تمام زاویوں کو گہرائی سے دیکھا جائے گا اور پھر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی اجازت پرعمران خان نے فاضل جج صاحبان کے روبرو کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے ادارے مضبوط ہیں لیکن ہمارے ادارے مضبوط نہیں، میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، میں کرپشن ختم کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں، لیڈر کوعام شخص سے زیادہ ایمانداراور دیانتدار ہونا چاہئے۔ اگر میری دیانتداری ثابت نہ ہوتو مجھے بھی عوامی عہدے پر آنے کا کوئی حق نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستانی قوم دنیا کی ان 10 اقوام میں شامل ہوتی ہے جو سب سے زیادہ خیرات اور فلاحی کاموں میں حصہ ڈالتی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم ٹیکس کی ادائیگی میں سب سے پیچھے ہیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل پر کہا کہ گلف اسٹیل کے واجبات 63 ملین درہم سے زیادہ تھے لیکن اس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں آئی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ابتدائی دلائل میں آپ نے یہ بات نہیں کی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز میں نے تیار نہیں کی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ مریم کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں جب کہ شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ متنازعہ دستاویز کو چھان بین کے بغیر کیسے تسلیم کریں،عدالت میں دستخط پر اعتراض ہو تو ماہرین کی رائے لی جاتی ہے، ماہرین عدالت میں بیان دیں تو ان کی رائے درست مانی جاتی ہے۔ عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت ایسا کر چکی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ گیلانی کیس میں عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ یہ بھی وزیراعظم کے ان اثاثوں کا مقدمہ ہے جو ظاہر نہیں کیے گئے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسی دستاویزات کو ثبوت مانا جا سکتا ہے، عدالت نے ہمیشہ غیر متنازعہ حقائق پر فیصلے کیے، کیا ہم قانون سے بالاتر ہو کر کام کریں۔ عدالت اپنے فیصلوں میں بہت سے قوانین وضع کر چکی ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ سن رہے ہیں، مقدمہ ٹرائل کی نوعیت کا نہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ کیا دنیا میں کسی نے پاناما لیکس کو چیلنج کیا ہے، وزیراعظم نے بھی موزیک فونیسکا کو کوئی قانونی نوٹس نہیں بھجوایا، 1980 سے 2004 تک قطری شیخ بینک کا کردار ادا کرتے رہے، سرمایہ کاری پر منافع اور سود بھی بنتا گیا، سالہا سال تک قطری مراسم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، قطری نے کہہ دیا کہ قرض کی رقم اس نے ادا کی، اتنی بڑی رقم بینک کے علاوہ کیسے منتقل ہوگئی، انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ اسی قطری کو ایل این جی کا ٹھیکہ دیا گیا، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں سچ نہیں بولا، انہوں نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا، گیلانی کیس کی طرح میں بھی عدالت سے ڈیکلریشن مانگ رہاہوں، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ قطری ٹھیکے والی بات مفادات کے ٹکراؤ کی جانب جاتی ہے۔