اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں پراتفاق رائے پیدا کرنا
پاکستان میں فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے آج آل پارٹیز کانفرںس (اے پی سی) کا انعقاد کیا۔
فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے آج اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرںس (اے پی سی) کا انعقاد کیا تاہم اس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نےشرکت نہیں کی، جب کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق تمام سیاسی جماعتیں پارلیمینٹ میں ایک ہی موقف کے ساتھ پیش ہوں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں پر ہم سب کا مشترکہ مؤقف پیش ہو، اگر ہم نے پارلیمنٹ میں علیحدہ یا مشترکہ مؤقف دینا ہے تو بھی اس کا فیصلہ آج ہی کرلیتے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے لفظ ’دہشت گردی‘ کی تشریح کی جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مذہب اور فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ہر مسلح گروہ کے خلاف کارروائی کی جائے، ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے دہشت گردی کے زمرے میں آنا چاہیے۔
اے پی سی ختم ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران اے پی ایم کے سربراہ شیخ رشید نے بتایا کہ اے پی سی میں بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر اتفاق کرلیا گیا۔
شیخ رشید کے مطابق اے پی سی کو آگاہی دی گئی کہ پہلے ہی ملک کی 8 سیاسی جماعتیں عدالتوں کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ 28 فروری کو پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔
اے پی سی میں عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مجلس وحدت مسلمین سمیت دیگر سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے رہنماشریک ہوئے۔
پاکستان میں گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں کے بعد فوجی عدالتوں کی ضرورت کا احساس بڑھا، جس کے بعد بظاہر تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر متفق ہوئیں۔
خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ان کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔
فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔
عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا، جن کی 2 سالہ مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔