دہشتگردوں کا ہدف تعلیمی ادارے کیوں؟
پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی نے جب بھی سر اٹھایا ہے، ان کا پہلا ہدف تعلیمی ادارے ہی بنے، گذشتہ روز چلاس، دیامر اور آج پشین میں ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے پشین کی تحصیل خانوزئی پشین میں دہشتگردوں نے لڑکیوں کے لیے قائم 2 اسکولوں کو آگ لگا دی۔ اسکو ل میں آگ لگانے کا واقعہ چھٹی کے بعد پیش آیا اور کسی جانی نقصان کی بھی تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔
سیکریٹری تعلیم بلوچستان کا کہنا تھا کہ آگ لگانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
یاد رہے کہ3 اگست کو گلگت بلتستان کے ضلع چلاس کی ایک تحصیل میں شرپسند دہشتگردوں نے رات کے اندھیرے میں لڑکیوں کے لیے قائم 12 اسکولوں کو نذر آتش کیا تھا۔
واضح رہے کہ ماضی میں بھی جب خیبرپختونخوا (کے پی) میں دہشت گردوں نے قدم جمانا شروع کیے تو انہوں نے پہلا ہدف تعلیم ہی کو بنایا۔ کے پی کم و بیش 7 سال تک شدت پسندی کی زد میں رہا اور اس دوران تعلیمی اداروں پر 4 بڑے حملے کیے گئے جبکہ 150 سے زائد اسکولوں کی عمارتیں تباہ کی گئیں۔
یہ سلسلہ 2007 میں اس وقت شروع ہوا جب سوات میں ملا فضل اللہ کی قیادت میں طالبان شدت پسندوں نے سر اٹھانا شروع کیا جہاں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول زبردستی بند کرانے کا عمل شروع کر کے علاقے میں دہشت پھیلائی گئی جبکہ ایک سال بعد علاقے میں مکمل عملداری کے بعد رات کو اسکولوں کی عمارتیں بارودی مواد سے اڑائی جانے لگیں۔
محکمہ تعلیم اور پارسا (PARSA) خیبرپختونخوا کی رپورٹ کے مطابق 4 سال کے دوران صرف سوات میں 134 اسکولوں کی عمارتیں مکمل طور تباہ کی گئیں، اسی طرح مالاکنڈ، بونیر اور دیر میں بھی 30 سے زائد اسکول بموں سے اڑا دیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کے ہاتھوں 2013 تک صوبہ بھر میں 170 اسکول تباہ کیے گئے جن میں سوات، مالا کنڈ کے علاوہ پشاور،ہنگو، بنوں، لکی مروت اور دیگراضلاع میں بھی 42 اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
قبائلی علاقوں میں بھی 360 سے زائد اسکول عمارتوں کو بارودی مواد سے نشانہ بنا کر نقصان پہنچایا گیا۔