پاکستانی فوج کے بیان پرسیاستدانوں کا سخت رد عمل
ڈی جی آئی ایس پی آرکے بیان پر پاکستان کی سیاسی اور مذھبی جماعتوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی دینی ہے تو اس حوالے سے بیانیہ وزیرخارجہ کو دینا چاہیے اگرانتہا پسندی سے متعلق پالیسی بیان کرنا ہے تو وہ وزیر داخلہ دے، ڈی جی آئی ایس پی آر کو سیاسی بیانات نہیں دینے چاہئیں، وزیراعظم آئی ایس پی آر سے پالیسی بیان دلوائیں گےتو ادارہ متنازع ہوگا اور ہم نہیں چاہتےکہ ہمارے ادارے متنازع ہوں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر آئی ایم ایف سے بات چیت کررہی ہے، حکومت کوآئی ایم ایف کی ڈیل کو پارلیمنٹ میں لاناپڑے گاورنہ ہم نہیں مانیں گے۔
ادھرلاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آج حکومتی معاملات پر فوج کے نمائندے نے بات کی، ڈی جی آئی ایس پی آر نے ان باتوں کو چھیڑا جو ان کا کام نہیں، ہم شروع سے کہتے تھے اصل حکومت فوج کی ہے اور فیصلوں کی محور، حکومت اورپارلیمنٹ نہیں جی ایچ کیو ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مدارس سے متعلق غلط باتیں کی گئیں اور یہ سب آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے ہے، قرضے لینے کے لیے بھونڈا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے، مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کے تحت لانے کی بات ہوئی تھی لیکن مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت لانے کی کبھی بات نہیں ہوئی اور پھر دینی مدارس کا نصاب تعلیم لانے والے آپ کون ہیں؟ آپ کا تو اپنا کوئی نصاب نہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ آپ کو اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی، 70 سال کے جابرانہ رویے کا ملبہ مدارس پر نہ ڈالا جائے، انتہا پسندی معاشرتی مرض ہے مدارس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔