شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی زندگی کا مختصر جائزہ
چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو، بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا
حالات زندگی:
سید عارف حسین بن سید فضل حسین 25 نومبر 1946 کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی اور علمی اور سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی گاؤں پیواڑ پاک ـ افغان سرحد پر واقع ہے جس میں "غُنڈی خیل"، "علی زئی" اور "دوپر زئی" نامی قبائل آباد ہیں۔ سید عارف حسینی پختونوں کے طوری قبیلے کی شاخ "دوپرزئی" سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب شاہ شرف بو علی قلندر بن سید فخر ولی تک پہنچتی ہے جن کا نسب شرف الدین بوعلی شاہ قلندر ابن ابوالحسن فخر عالم تک پہنچتا ہے۔ بو علی شاہ کا مدفن ہندوستان کا شہر پانی پت اور فخر عالم کا مدفن پاراچنار کا نواحی گاؤں کڑمان ہے۔ چونکہ ان کا سلسلۂ نسب حسین الاصغر ابن علی بن الحسین(ع) تک پہنچتا ہے، لہذا ان کا خاندان "حسینی" کے عنوان سے مشہور ہے۔ ان کے آباء و اجداد ـ جن میں سے متعدد افراد علمائے دین اور مبلغین میں سے تھے ـ اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پیواڑ اور قریبی علاقوں میں سرگرم عمل تھے۔
سید عارف حسین حسینی نے اپنی طفولت کا دور اپنے آبائی گاؤں میں گذارا اور قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیمات اپنے والد کے حضور مکمل کرلیں۔ ان کے والد بھی علماء میں سے تھے۔ وہ بعدازاں اسکول میں داخل ہوئے اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ سنہ 1964 میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہوئے اور مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں "لقمانخیل" کے گاؤں "یوسف خیل" کے رہنے والے حاجی غلام جعفر سے دینی علوم میں حصول فیض کا آغاز کیا اور مختصر سے عرصے میں عربی ادب سیکھنے کا مرحلہ طے کیا۔ ان کی مادری زبان پشتو تھی اور وہ علاوہ ازاں فارسی، عربی اور اردو پر عبور رکھتے تھے۔
نجف میں
شہید علامہ سید عارف حسین حسینی سنہ 1967 میں نجف اشرف مشرف ہوئے اور نجف ـ اور بعدازاں قم ـ میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں عربی ادب کے تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلی مدارج طے کئے۔
امام خمینی(رح) سے واقفیت
وہ نجف میں آیت اللہ مدنی کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے اور ان کے توسط سے امام خمینی کی شخصیت اور کارناموں سے واقف ہوئے۔ سنہ 1873 میں انقلابی سرگرمیوں میں شراکت کے الزام میں عراق کی بعثی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے قید میں رکھا اور کچھ عرصہ بعد ملک بدر کیا۔
وطن واپسی اور شادی
وہ اپنے آبائی وطن میں پلٹ کر آئے اور 10 مہینوں تک پاراچنار میں تبلیغ دین میں مصروف عمل رہے۔ انھوں نے اسی عرصے میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔
قم میں حصول علم کا تسلسل
سنہ 1974 میں انھوں نے دوبارہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور نجف جانے کا فیصلہ کیا لیکن حکومت عراق نے انہیں ویزا دینے سے انکار کیا؛ چنانچہ وہ اسی سال قم روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ شہید استاد مرتضی مطہری، مکارم شیرازی، وحید خراسانی، میرزا جواد تبریزی، محسن حرم پناہی، اور سید کاظم حائری سے فلسفہ، کلام، فقہ، اصول اور تفسیر جیسے مضامین میں کسب فیض کیا۔
ایران سے ملک بدری
قم میں رہائش اور حصول علم کے دوران وہ پہلوی حکومت کے خلاف علماء اور عوام کے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے تھے لہذا انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہیں ایک ضمانت نامہ دستخط کے لئے پیش کیا گیا "کہ وہ مظاہروں میں شرکت نہیں کریں گے، انقلابی قائدین کی تقاریر میں شرکت نہیں کریں گے اور انقلابی راہنماؤں سے ربط ضبط نہیں رکھیں گے" لیکن انھوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا چنانچہ جنوری سنہ 1979 میں انہیں ایران چھوڑ کر پاکستان واپس جانا پڑا۔
وطن واپسی
وہ سنہ 1979 سے 1974 عیسوی تک مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس میں مصروف رہے۔ وہ جمعرات کے دن مدرسہ جعفریہ سے پشاور جاکر جامعۂ پشاور میں اخلاق اسلامی کی تدریس کیا کرتے تھے۔
پاکستان میں امام خمینی کے نمائندے
سید عارف حسین حسینی پاکستان میں امور حسبیہ اور وجوہات شرعیہ میں امام خمینی کے نمائندے اور وکیل تھے۔
شہادت
علامہ سید عارف حسین حسینی مورخہ 5 اگست سنہ 1988 عیسوی کو اپنے مدرسے "دارالمعارف الاسلامیہ میں استکبار جہانی کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔
اعلی سطحی ایرانی وفد اور امام خمینی(رح) کا پیغام
امام خمینی نے شہید کے جنازے میں شرکت کے لئے ایک وفد پاکستان روانہ کیا اور ان کی شہادت کے موقع پر پاکستان کے علماء اور قوم و ملت کے نام ایک مفصل پیغام جاری کیا،اور انہیں اپنا "فرزند عزیز" قرار دیا۔
آیت اللہ جنتی ایک اعلی سطحی ایرانی وفد کی سربراہی میں پشاور پہنچے اور نماز جنازہ کی امامت کی۔ بعدازاں شہید کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی شہر منتقل ہوئی اور ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں ہوئی۔
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی شہادت پر امام خمینی ؒ کے پیغام سے اقتباس
حجۃ الاسلام جناب آقای سید عارف حسین حسینی ـ جو اسلام اور انقلاب کے ایک وفادار رفیق، محروموں اور مستضعفوں کے مدافع، اور شھداء کے سید و سالار حضرت ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کے سچے فرزند تھے ـ کی شہادت پر آپ کے تغزیت و تبریک کے پیغامات تعزیت اور ٹیلگرام موصول ہوئے۔ اسلامی معاشروں کے درد آشناؤں کو ـ وہی جو محرومین اور برہنہ پا انسانوں کے ساتھ میثاق خون باندھ چکے ہیں ـ جان لینا چاہئے کہ ابھی وہ جدوجہد کی اس راہ کی ابتداء میں قدم رکھے ہوئے ہیں اور استعمار و استحصال کے بند توڑنے اور خالص محمدی(ص) اسلام تک پہنچنے کے لئے انہیں طویل راستہ طے کرنا ہے۔ اور علامہ عارف حسین حسینی کے لئے اس سے بڑھ کر بشارت کوئی نہ تھی کہ عبادت حق کے محراب سے ارجعی الی ربک کے خون میں رنگے عروج کا نظارہ کریں اور شہد شہادت سے وصل یار کا جرعہ نوش کریں اور عدل کے ہزاروں پیاسوں کے سرچشمۂ نور تک پہنچ جانے کے گواہ بنیں۔
پاکستان کی شریف اور مسلم قوم جو بےشک انقلابی اور اسلامی اقدار کی وفادار قوم رہی ہے، اور ہمارے ساتھ پرخلوص پرانے انقلابی، اعتقادی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہے، - کو اس شہید شخصیت کا تفکر زندہ رکھنا چاہئے اور اسے شیطان زادوں کو خالص محمدی(ص) اسلام کا راستہ روکنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ میں نے اپنے محبوب فرزند کو کھو دیا ہے۔
خداوند تعالی ہم سب کو پہلے سے زيادہ، مصائب جھیلنے کی توفیق اور شہیدوں کے روشن راستے کو دوام بخشنے کی زیادہ سے زیادہ قوت عطا فرمائے اور ستم گروں کی سازشیں اور مکاریاں ان ہی کی طرف پلٹا دے؛ اور اسلام کی باکرامت ملت کو جہاد و شہادت کے راستے میں ثابت قدمی عطا فرمائے۔
صحیفه امام ج 21 ص 119 و 121.
مآخذ:
زندگی نامه علامه شهید عارف حسین الحسینى از ولادت تا شہادت، تهیه كننده: مؤسسه شہید الحسینى، قم: نشر شاهد، 1369ہجری شمسی۔
تسلیم رضاخان، سفیر نور، لاهور 1998۔
حسین عارف نقوى، تذكره علماى امامیه پاكستان، ترجمه محمد ہاشم، مشہد 1370 ہجری شمسی۔
صحیفه امام، تہران، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378 ہجری شمسی۔