ادب کی دنیا میں ایک اور فقدان
معروف شاعر و ادیب اور علامہ رشید ترابی کے فرزند نصیر ترابی انتقال کرگئے۔
نصیر ترابی کی عمر 75 برس تھی اور وہ اردو کے نامور شاعر، ماہر لسانیات، لغت نویس جبکہ نامور خطیب علامہ رشید ترابی کے فرزند تھے۔
وہ 15 جون 1945 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی۔ نصیر ترابی نے 1962 میں جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ کے شعبے سے ایم اے کیا اور اسی سال اردو ادب سے وابستہ ہوئے اور شاعری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’عکس فریادی‘‘ 2000 ء میں شائع ہوا۔
1971 میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد انھوں نے ’وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی‘‘ کے زیر عنوان اک انتہائی مقبول ہونے والی غزل کہی۔ وہ سقوط ڈھاکہ کو ایک بہت بڑا تاریخی المیہ قرار دیتے تھے،جس کا عکس ان کی اس غزل میں نمایاں ہے۔ بعد ازاں نصیر ترابی کی اس معروف غزل کو ایک پاکستانی ڈرامے میں تھیم سانگ کے طور پر شامل کیا گیا اور اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
نصیر ترابی ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے کئی نمایاں اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ پاکستان رائٹر گلڈ کے ایگزیکٹیو ممبر جبکہ سینڈیکیٹ جامعہ کراچی اور ایریا اسٹڈی سینٹر یورپ کے ممبر بورڈ آف گورنر بھی رہے۔ انہوں نے ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور افسر تعلقات عامہ مقرر ہوئے۔
ان کی شائع ہونے والی کتابوں میں (غزلیات)، شعریات (شعر و شاعری پر مباحث اور املا پر مشتمل)، لاریب (نعت، منقبت، سلام) شامل ہیں۔ ان میں سے لاریب کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔