اسلام آباد میں افغانستان کی مدد کے موضوع پر اعلی سطحی اجلاس
پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان خوراک جیسے بنیادی ضروریات کے بحران سے دوچار ہے لیکن اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر طالبان حکومت کو تسلیم کئے گئے بغیر کابل کی مدد میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان کے وزیر اقتصادی امور عمر ایوب خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کی نئی طالبان انتظامیہ کی مدد کے لیے مختلف راستوں کا جائزہ لیا گیا۔
افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے گئے اجلاس میں وزیر قومی غذائی تحفظ اور تحقیق سید فخر امام، مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی واپڈا کے چیئرمین (ر) لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ افغانستان کی طالبان انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج امریکی افواج کے انخلا کے فوراً بعد تکنیکی اور مالیاتی ماہرین کے بڑے پیمانے پر ملک سے چلے جانے سے پیدا ہونے والا خلا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ مختلف شعبوں کے ماہرین کے بیرون ملک چلے جانے سے افغانستان کے بڑے اداروں خاص طور پر تکنیکی اور مالیاتی نوعیت کے اداروں کو بجلی، طبی اور مالی سہولیات جیسی ضروری خدمات فراہم کرنے میں ناتوانی کا سامنا ہے۔ اجلاس میں افغانستان سے بینکاری شعبے کے عملے لانے اور ان کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماہرین کے ذریعے کریش ٹریننگ کورسز کے انتظام پر بھی غورکیا گیا۔
اجلاس میں کہا گیا ہے کہ افغان مرکزی بینک اہلیت سے محروم ہے اور اسے مالیاتی انتظامات کے لیے فوری طور پر تنظیم نو اور صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ واپڈا کی انتظامیہ پاور سیکٹر ٹیموں کی صلاحیت بڑھانے میں مدد کر سکتی ہے کیونکہ بجلی کے بریک ڈاؤن کے نتیجے میں دارالحکومت کابل جیسے بڑے شہروں میں پانی کی فراہمی اور صحت کی سہولیات میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔
اس سلسلے میں جاری ایک بیان کے مطابق اجلاس میں پاکستان کے وفاقی وزیر اقتصادی امور عمر ایوب نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں باہمی اقتصادی معاونت کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر سمیت مختلف شعبوں میں چودہ کروڑ تراسی لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی لاگت کے بیس منصوبے شروع کر دیئے ہیں جبکہ افغانستان میں بائیس کروڑ اٹھارہ لاکھ تیس ہزار ڈالر کے نو دیگر منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔