جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران، ملک میں جبری گمشدگی کو ریاست کی ناکامی کی علامت قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر عدالت میں کوئی بھی شخص آکے شکایت کرتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہوگیا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیرین مزاری کو جو عدالت کے حکم پر حاضر ہوئی تھیں، کہا کہ آپ کو اس لئے زحمت دی گئی ہے کہ ملک میں جبری گمشدگی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، لیکن ریاست کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔ اسلام آباد کے چیف جسٹس نے کہا کہ لا پتہ افراد کی ذمہ داری وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان پر آتی ہے۔ انھوں نے استفسار کیا کہ زرتلافی ریاست کے بجائے وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان کیوں نہ کریں۔؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین سال سے لاپتہ صحافی مدثر نارو کے لواحقین کو مطمئن کرنے کے لئے حکومت کو تیرہ دسمبر تک کا وقت دیا ہے۔