Apr ۱۳, ۲۰۱۷ ۲۳:۰۵ Asia/Tehran
  • ٹائمز اخبار کے نمائندے کا سوال اور امام خمینی کا جواب

تحریر : ڈاکٹر آر نقوی

امام خمینی (رح) سے پوچھے جانے والے سوالات مختلف ہوتے ۔ بعض سوال مترجمیں اور سننے والوں کے لئے اتنے دلچسپ ہوتے کہ فوری طور پر دوسروں کو نقل کئے جاتے ۔ سوال پوچھنے والوں میں سے ایک ٹائمز اخبار کا نمائندہ بھی تھا جس نے دوسرے رپورٹروں سے ہٹ کر کچھ سوال امام سے پوچھے ۔ اس نے امام سے سوال کیا میں آپ کے بچپن اور موجودہ زندگي کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تاکہ جان سکوں کہ آپ کس طرح موجودہ نظریئے تک پہنچے ہیں ۔

میں ایک عیسائي ہونے کے ناطے آپ کے عقائد جاننا چاہتا ہوں ۔ آپ کہاں اور کیسے ان افکار و عقائد تک پہنچے ہیں اور ان پر کیسے عمل کریں گے ؟

یہ ایک عیسائي رپورٹر کا سوال تھا لیکن بہت سے لوگ اس سوال کا جواب سننا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ سب اس سوال کا جواب سننے کے مشتاق تھے ۔ امام کی طرف سے اس سوال کا  لب لباب یہ تھا کہ میری ذاتی زندگي بھی دوسرے افراد کی طرح ایک عام زندگي ہے لہذا اس کی تفصیل بتانا ضروری نہیں، میرا اور مسلمانوں کا اصل عقیدہ توحید پر استوار ہے ۔ اس نظریئے کے تحت ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ عالم اور بقیہ عوالم، سب کے سب خداوند متعال کے خلق کردہ ہیں اور ذات مقدس آگاہ، قادر اور تمام چیزوں کی مالک ہے ۔

ہم اس ذات کے سامنے سر تسلیم خم ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں لہذا کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنی اطاعت پر مجبور کرے ۔ ہم اپنے اس عقیدے سے انسانی آزادی کا نتیجہ لیتے ہیں اور اس اصول کی بنیاد پر ہمارا ایمان ہے کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی انسان کو آزادی سے محروم کرے کیونکہ انسان کی اگر آزادی سلب کرلی جائے وہ انحطاط اور سقوط کا شکار ہوجاتا ہے لہذا ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جس طرح اس کائنات اور ہستی کے بارے میں خداوند عالم نے قانون متعین کئے ہیں انسان کے بارے میں بھی قانون سازی کا حق صرف خداوند عالم کی ذات کو ہے آپ نے مزيد کہا سامراجی اور استبدادی طاقتوں کے خلاف ہمارے قیام کا سرچشمہ بھی یہی نظریہ توحید ہے، پس ہمارے اس دینی عقیدے کے مطابق ہم ہر اس عنوان کے خلاف قیام کریں گے جو سماج میں ناانصافی کا مرتکب  ہو اور کھوکھلے اور گھٹیا امتیازات کو معاشرے پر نافذ کرے۔  ٹائمز کے رپورٹر نے پوچھا میں آپ کو ایک ایسی چٹان کی طرح محسوس کررہا ہوں جو مشکلات و مصائب کے طوفان میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ استوار ہے لیکن میں آپ کو صرف ایک انقلابی شخصیت نہیں کہہ سکتا ۔ میں کس طرح ایک مذہبی اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے آپ کے اس واضح تضاد کو آپ کے سیاسی مخالفین کے سامنے پیش کرسکتا ہوں ۔

امام نے اس سوال کے جواب میں کہا اگر تم چاہو تو مذہب کے مفہوم کو اسلامی ثقافت میں درک کرسکتے ہو ۔ تمہیں پتہ چلے گا کہ اسلام میں مذہبی اور سیاسی قیادت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ سیاست اور انسانی تعلقات کو منظم کرنا نیز بےانصافی کے خلاف قیام ہمارا دینی اور عبادتی فریضہ ہے ۔ اگر رسول خدا حضرت محمد مصطفی اور حضرت علی (ع) کی سیرت و زندگي کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ دینی رہبر بھی تھے اور سیاسی رہبر بھی۔

اسلامی تعلیمات میں صرف خدا اور بندے کے درمیان رابطہ دین نہیں ہے ۔ اسلام جس طرح انسان سے یہ کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو وہاں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ زندگي کیسی گزارنی چاہئے اور انسانوں کے باہمی رابطے کیسے ہوں نیز اس کا عالم فطرت سے کیسا رابط ہونا چاہیے، اسلام میں اسلامی معاشروں کے دوسرے سماجوں سے رابطے کے حوالے سے بھی احکامات موجود ہیں اور اس بارے میں بہت زيادہ فرامین موجود ہیں۔

ٹیگس