Apr ۱۳, ۲۰۱۷ ۲۳:۱۱ Asia/Tehran
  • جوانوں پر ثقافتی یلغار کے اثرات ( دوسرا حصہ )

تحریر: نوید حیدر تقوی

ثقافتی یلغار کے شعبوں کے حوالے سے، نوجوانوں کی کم آگاہی اور عدم تجربہ کاری ایک اہم مسئلہ ہے۔

نوجوان نسل کہ جو ابھی پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے بہت زیادہ تجربہ نہیں رکھتی اور زندگی کے ابتدائی نشیب و فراز سے گزر رہی ہے اور اسی وجہ سے تسلط پسندوں کی ثقافتی یلغار میں پھس جاتی  ہے۔

 نوجوانوں کی کم تجربہ کاری اس امر کا باعث بنتی ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کرنے میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نوجوانوں کی جانب سے مغرب کی ثقافت کی اندھی تقلید اور ان کی شخصیات کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا، اس بات کا بیّن ثبوت ہے۔

ثقافتی یلغار کرنے والے بھی نوجوانوں کی اس خصوصیت سے استفادہ کرتے  ہوئے ان کو اپنے جال میں پھسالیتے ہیں۔

فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، اے جوانوں تقوی الہی اختیار کرو اور جھوٹے لوگوں کی پیروی نہ کرو، امام کی اس حدیث سے نشاندہی ہوتی ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے دور میں بھی ثقافتی یلغار کرنے والے نوجوانوں کو ہی اپنا نشانہ بناتے تھے۔

ثقافتی یلغار کے فروغ کی ایک وجہ، ثقافتی خلاء کا پایا جانا ہے۔

ثقافتی خلاء کے معنی یہ ہیں کہ نوجوان، صحیح طریقے سے ثقافت کو اپنی زندگی میں جگہ نہیں دیتے، عملی طور پر انہوں نے اپنی قدیم ثقافت سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہوتی۔

اس طرح وہ تیز ہواؤں کے سامنے، تازہ پودوں کی مانند غیر مستحکم نظر آتے ہیں، اس صورت حال میں نوجوانوں کا اپنی ثقافت کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اور وہ قومی غیرت و عزت و افتحار اور ثقافتی شناخت کو فراموش کردیتے ہیں۔

 ثقافت سے دوری دشمن کی ثقافت کو قبول کرنے کے لئے زمین فراہم کرتی ہے۔

یقینی طور پر نوجوانوں کو یہ بات بتانی چاہیے کہ اسلامی معاشرہ بے پناہ ثقافت و تمدن کا حامل ہے اور اکثر عزت و افتخار اور علمی کارنامے اور علمی چوٹیوں کو سر کرنا، اسلامی معاشروں سے مربوط رہے ہیں۔ دوسری جانب خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات و معارف سے سرشار ہے جو خود ایک عظیم سرمایہ شمار ہوتا ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کی ثقافتی لحاظ سے تربیت کی جاسکتی ہے اور یہ عظیم سرمایہ خود اعتمادی اور خدا پر یقین میں اضافہ کے ساتھ علمی کارناموں اور عزت و افتخار کے لئے زمین ہموار کرتا ہے۔

امام معصوم کی حدیث ہے کہ اگر ہماری تعلیمات بیان کی جائیں تو لوگ اس کو غور سے سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔   

قرآن خدا کا نورانی کلام اور انسان کی ابدی سعادت و خوشبختی کی ہدایت و راہنمائی اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو آپس میں ملانے کا ذریعے ہے۔

ایسے میں جبکہ مسلمان کو دشمنوں کے ظلمانہ حملوں کے مقابلے میں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہو تو بہترین راہ یہ ہے کہ سب کو مل کر قرآن کے دامن میں پناہ لینی چاہیے اور قرآن کی پرفیض تعلیمات نوجوانوں کو دشمنوں کی گزند سے نجات دلا سکتی ہیں۔

یہی الہی مضبوط رشتہ ہے کہ جو دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے اور اطمینان و  سلامتی کی فضا کو پیدا کرتا ہے۔

قرآن نوجوان کو بامقصد زندگی کی طرف ہدایت کرتا ہے اور خود اعتمادی، ایمان، آزادی اور انصاف پسندی کی ثقافت کو پروان چڑھاتا ہے اور اس لحاظ سے نوجوان بیہودہ و بے مقصد اور عدم شناخت کی حامل زندگی سے رہائي پیدا کرلیتا ہے اور بامقصد نصب العین کی طرف حرکت کرنے لگتا ہے۔

یہی نور و ہدایت ہے کہ جس کی طرف سورہ مبارکہ مائدہ کی 15ویں اور 16ویں آیات میں اشارہ ہوا ہے خداوند متعال فرماتا ہے۔

اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آ چکا ہے جو اُن میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کر رہا ہے جن کو تم کتابِ خدا میں سے چھپا  رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتا ہے تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے، جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کی اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نوجوانوں کی عظیم آسمانی کتاب سے آشنائی، ان کو دشمن کی ثقافتی یلغار کے مقابلے کے لئے تیار اور نوجوانوں کے اخلاقی و عقیدتی اصولوں کو تباہ کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ثقافتی یلغار کے حوالے سے حکومتی عہدیداروں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، میرے عزیزوں، آج ثقافتی یلغار کے شعبے میں جدید وسائل و ٹیکنالوجی کا استعمال، اہم مسئلہ میں تبدیل ہوچکا ہے اور سیکڑوں وسائل اور معلومات کے تبادلے کے ساز و سامان ہمارے نوجوانوں کی سمت بڑھ رہے ہیں جن میں ٹیلی ویژن، ریڈیو، کمپیوٹر اور اس جیسی بہت سے چیزوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ دیگر وسائل مختلف طریقوں سے منتقل کیئے جا رہے ہیں یقینی طور پر اس کے مقابلے میں سختی سے ڈٹ جانا چاہیے۔

آج کے دور میں پرانی روشوں پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نوجوانوں کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کی افکار ونظریات کی شناخت بھی ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ جن چیزوں سے ان پر حملہ کیا جارہا ہے ان کی بھی شناخت ضروری ہے، جب تک بیماری اور اس کے جراثیم کی شناخت نہیں ہوگی اس کا علاج ممکن نہیں ہے ، اس سارے کام کے لئے باصلاحیت ہونا ضروری ہے، درس پڑھنا، مطالعہ کرنا، کام کرنا یہ تمام چیزیں دینی مہارت کا نتیجہ ہیں۔

نوجوان نسل حساس ترین اور نقصان کی زد میں رہنے والی کسی بھی ملک کی قیمتی ترین قوت ہے۔

 فوجی حملہ، ایک قوم کو طاقتور بنادیتا ہے اور ثقافتی یلغار قوم کو سست کردیتی ہے۔

ایک جگہ آشکارہ جنگ ہے اور ایک جگہ خفیہ تباہی کے سامان فراہم کیئے جاتے ہیں۔

 فوجی حملہ، زمین پر قبضے کی لالچ میں کیا جاتا ہے، جبکہ ثقافتی یلغار، دین و اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔

اے جوانوں اٹھ کھڑے ہو اور اپنی علم و آگاہی اور دینی غیرت اور خود اعتمادی اور خدا پر بھروسہ  کرتے ہوئے، دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنادو۔ 

 

 

 

 

ٹیگس