Mar ۱۰, ۲۰۱۸ ۱۶:۴۱ Asia/Tehran
  • سعودی ولی عہد کا دورہ برطانیہ- مقالہ

سعودی ولیعہد نے برطانیہ میں بھی ایران، ترکی اور دہشت گردی کو شیطانی مثلث قرار دیا ہے۔ لیکن ان کا اصل نشانہ اسرائیل کی طرح ایران ہے اور وہ اس بارے میں یورپی حکام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں

سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اس ہفتے اپنے بیرون ملک دوروں کے دوسرے مرحلے میں برطانیہ پہنچے۔ سیاسی ماہرین سعودی عرب کے جوان اور جاہ طلب شہزادے کے بیرون ملک دوروں کو اپنی ولیعہدی کو مشروعیت اور جواز فراہم کرنے نیز ایران مخالف اتحاد کیلئے مغربی اور علاقائی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کا آخری قدم قرار دیتے ہیں۔

مشرق وسطی سے متعلق امور کے ماہر حسین رویوران کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس وقت یمن کی تھکا دینے والی جنگ کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے اور محمد بن سلمان کے بیرون ملک دوروں کا مقصد اس مشکل سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ان کے بقول سعودی عرب اسرائیل سے مل کر ایران مخالف اتحاد تشکیل دینا چاہتا ہے اور حالیہ دوروں میں اس مقصد کے حصول کیلئے یورپی ممالک کی حمایت کا خواہاں ہے۔ 

برطانوی عوام کی جانب سے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے دورہ برطانیہ کے خلاف بھرپور احتجاج کے بعد برطانوی وزارت خارجہ نے اس دورے کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز قرار دیا۔ یہ امر کس حد تک حقیقت کا حامل ہے؟ میرے خیال میں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

برطانوی حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے شہزادہ محمد بن سلمان سے یمن جنگ کے باعث پیدا شدہ بحران کم کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ لیکن میری نظر میں یہ ایک مضحکہ خیز ڈرامہ بازی ہے کیونکہ برطانیہ پوری طرح سعودی عرب کی فوجی مدد کر رہا ہے اور برطانیہ کے فراہم کردہ بمب ہی یمن کے بیگناہ شہریوں پر گرائے جا رہے ہیں۔ برطانیہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور اس نے سکیورٹی کونسل میں یمن کے خلاف سعودی جارحیت کی حمایت کر رکھی ہے۔ جوان سعودی ولیعہد کے اس دورے کے اہداف کیا تھے؟ اس بات کے پیش نظر کہ وہ مستقبل قریب میں امریکہ کا دورہ بھی کرنے جا رہے ہیں کیا ان دوروں کا اصل مقصد ایران سے مقابلے کیلئے مغرب کی حمایت حاصل کرنا ہے؟ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پہلی ترجیح مغربی ممالک سے تعلقات مضبوط بنانا ہے تاکہ سعودی فرمانروا ملک سلمان کی خرابی صحت کے پیش نظر ممکنہ جانشینی کی مد میں حمایت حاصل کر سکے۔

محمد بن سلمان کا دوسرا مقصد ایران کے مقابلے میں ان ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ سعودی ولیعہد نے برطانیہ میں بھی ایران، ترکی اور دہشت گردی کو شیطانی مثلث قرار دیا ہے۔ لیکن ان کا اصل نشانہ اسرائیل کی طرح ایران ہے اور وہ اس بارے میں یورپی حکام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ 

سعودی عرب اس وقت یمن کے خلاف جنگ میں بحرانی صورتحال کا شکار ہے۔ یمن کی جنگ ایک تھکا دینے والی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لہذا سعودی حکام جتنا جلدی ممکن ہو یمن کی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف موجودہ زمینی حقائق یمن میں سعودی عرب کی شکست اور ناکامی ظاہر کر رہے ہیں لہذا سعودی عرب اس لئے جنگ ختم کرنے کا خواہاں نہیں کہ یمن کے خلاف اس کا پلڑا بھاری ہے بلکہ اس پر برطانیہ اور مغربی ممالک کی جانب سے جنگ ختم کرنے کیلئے دباو ڈالا جا رہا ہے۔ 

شہزادہ محمد بن سلمان نے برطانیہ میں معروف تاجروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں جبکہ دوسری طرف ملک میں اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری کر رکھا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سعودی عرب میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے ایک پرامن ماحول فراہم کرنے کے درپے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہاں کی صورت میں ہے۔

سعودی عرب اس وقت شدید مالی مشکلات کا شکار ہے اور تاریخ میں پہلی بار اسے بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ سعودی حکومت عوام پر ٹیکس لگانے پر مجبور ہو گئی ہے جبکہ ماضی میں سعودی مفتی ٹیکس کو بدعت کے طور پر بیان کرتے تھے۔ یمن کے خلاف جنگ کا طولانی ہو جانا اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گر جانا سعودی عرب کی مالی مشکلات کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

لہذا اس وقت سعودی ولیعہد نے اپنی پوری توجہ بیرونی سرمایہ کاری پر مرکوز کر رکھی ہے اور وہ اس مقصد کیلئے حتی سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کی کمپنی آرامکو کے شیئرز بھی بیچنے کو تیار ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ترزا مے سمیت کئی برطانوی سرمایہ کار شہزادہ محمد بن سلمان کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آرامکو کمپنی کے شیئرز لندن اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کریں۔ البتہ سعودی ولیعہد نے اب تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ 

دوسری طرف سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں سعودی فرمانروا نے مسلح افواج کے تمام سربراہان کو برطرف کر کے نئے افراد کا تعینات کیا ہے۔ یہ اقدام بھی درحقیقت شام اور یمن میں ناکامیوں کا شاخسانہ ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بھی آہستہ آہستہ اعلانیہ ہوتے جا رہے ہیں جن کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اعلی سطحی سعودی اور اسرائیلی حکام اعلانیہ طور پر ایکدوسرے کے ممالک کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ ایک نئی تبدیلی ہے۔

تحریر: پوریا فیروز نژاد

بشکریہ: اسلام ٹائمز

ٹیگس