کیا آپ نے گرم اور سیاہ برف دیکھی ہے؟
برف کا نام آتے ہی ذہن میں ٹھنڈی اور سفید چیز کا خیال آتا ہے لیکن اب امریکی سائنسدانوں نے زبردست دباؤ اور بلند درجہ حرارت پر پانی کو سیاہ رنگت والی برف میں تبدیل کرلیا ہے۔
تکنیکی زبان میں یہ ’سپرآیونک آئس‘ کہلاتی ہے جسے عام زبان میں ’گرم سیاہ برف‘ کہا جاتا ہے۔
اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ شاید برف کی یہی قسم یورینس اور نیپچون سیاروں کی گہرائی میں موجود ہے، جس کی وجہ سے ان دونوں سیاروں کا عجیب و غریب مقناطیسی میدان بھی وجود میں آتا ہے۔
گرم سیاہ برف کی پیش گوئی 1990 کے عشرے میں کی گئی تھی جبکہ اسے پہلی بار 2019 میں بنایا گیا، لیکن وہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت تک اپنی حالت برقرار رکھ پائی۔
نئے تجربات میں آرگون نیشنل لیبارٹری، امریکا میں تیار کی گئی ’سپر آیونک آئس‘ کئی سیکنڈ تک اپنی اسی حالت میں رہی اور یوں سائنسدانوں کو اس کی کچھ اہم خصوصیات معلوم کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
واضح رہے کہ شدید دباؤ اور زبردست درجہ حرارت پر یہ پراسرار برف اس وقت بنتی ہے کہ جب پانی کے سالموں (مالیکیولز) میں موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن ایک دوسرے سے الگ ہوکر آئنز (باردار ایٹموں) کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
اس کے بعد آکسیجن آئن خود کو مکعب (کیوب) جیسی ایک جالی کی شکل میں ترتیب دے دیتے ہیں جبکہ ہائیڈروجن آئن اس جالی میں آزادی سے اِدھر اُدھر حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔
اسی بناء پر ’سپر آیونک آئس‘ کی کثافت بہت کم رہ جاتی ہے، اس کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے جبکہ اس میں سے بجلی بھی قدرے آسانی سے گزر سکتی ہے۔
آرگون نیشنل لیبارٹری میں یہ ’گرم سیاہ برف‘ انتہائی خصوصی حالات کے تحت تیار کی گئی، جس کےلیے پانی پر 20 گیگا پاسکل دباؤ ڈالا گیا (جو زمین پر ہوا کے دباؤ سے تقریباً دو لاکھ گنا زیادہ تھا)۔
اس کے ساتھ ہی پانی کو لیزر سے گرم کیا جاتا رہا۔ سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ یہ برف 627 ڈگری سینٹی گریڈ پر بننا شروع ہوئی اور 1,627 ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رہی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جس دباؤ پر ’سپرآیونک آئس‘ بننے کی پیش گوئی کی گئی تھی، یہ اس کے مقابلے میں بہت کم دباؤ پر وجود میں آگئی۔
اس عجیب و غریب اور پراسرار برف کے بارے میں مزید جاننے کےلیے اسے بہت دیر تک اسی حالت میں برقرار رکھنا ہوگا۔ آئندہ تجربات میں ماہرین اسے چند گھنٹوں تک اسی حالت میں رکھنے کی کوشش کریں گے، لیکن یہ کوئی آسان کام ہر گز نہیں ہوگا۔
البتہ، گرم سیاہ برف کے بارے میں مزید جان کر ہمیں نہ صرف غیر معمولی حالات میں مادّے کا طرزِ عمل سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ ہم یہ اندازہ بھی لگا سکیں گے کہ یورینس اور نیپچون جیسے بھاری بھرکم سیاروں میں شدید دباؤ کے تحت پانی پر کیا گزرتی ہے۔
شکریہ
ایکسپریس نیوز