راغب حرب اور عباس موسوی سولہ فروری کے دو عظیم شہید
شہید سید عباس موسوی کی شہادت پر انقلاب اسلامی کے قائد حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ''سید عباس موسوی کی شہادت اسلامی مزاحمت کی راہ میں ایک اہم موڑ اور اسلامی مزاحمت کے ثمرات میں سے ایک ہے
سولہ فروری تاریخ کے دو عظیم شہیدوں شہید راغب حرب اور شہید عباس موسویکا یوم شہادت ہے۔
شہید راغب حرب ۱۹۵۲ میں لبنان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نجف اشرف چے گئے۔ صدام حسین کی جانب سے ملک بدر کئے جانے کے بعد لبنان واپس آگئے اور جبشیت کے علاقے میں امام جمعہ کے فرائض انجام دینے لگےاور اسلامی مزاحمت کے لئے رضاکاروں کو جمع کرنا شروع کردیا۔
۱۹۷۸ میں صیہونی حکومت کی جانب سے حملے کے دوران شہدا کے اہل خانہ اور زخمیوں کی خفیہ طور پرمدد کرتے اور یہی بات لبنان میں شہداء فاونڈیشن کے قیام کا سبب بنی۔
یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک دن ایک جارح صیہونی فوجی نے ہاتھ ملانا چاہا تو شہید راغب حرب نے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ اس نے پوچھا کہ ہاتھ کیوں نہیں ملاتے کیا ہم نجس ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تم جارح ہو اور ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہو ہمارے ملک سے نکل جاو اور پھر اپنا موقف بیان کیا جو بہت مشہور ہوگیا کہ" ہمارا موقف ہمارا سلحہ ہے اور ہاتھ ملانا اعتراف کرنے کے مترادف ہے۔" صیہونی فوجیوں نے چند مرتبہ انکے گھر پر حملہ کیا لیکن ہمیشہ ناکام رہے ۔
۱۶ فروری ۱۹۸۴ کو شہید راغب حرب دعائے کمیل پڑھ کر اپنے گھر واپس جارہے تھے کہ صیہونی فوجیوں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور آُ کو شہید کردیا۔
سید عباس موسوی نے بھی اپنی پوری زندگی صیہونی حکومت سے جنگ میں ہی گذاری۔ عراق میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی ہمیشہ بعثی حکومت کے خلاف علم حق بلند کیا۔ لبنان واپس آنے کے بعد حزب اللہ کی تشکیل میں حصہ لیا۔ آپ امام خمینی رح اور شہید باقر الصدر کے افکار و نظریات سے بہت متاثر تھے۔ آپ کو ۱۹۹۱ میں حزب اللہ کا سیکرٹری جنرل چنا گیا۔
16 فروری 1992ء کو سید عباس موسوی جنوبی لبنان کے علاقے جب شئت میں شہید راغب حرب کے یوم شہادت پر منعقدہ ایک تعزیتی جلسے میں خطاب کے لئے تشریف لے گئے، آپ کے ہمراہ آپ کی اہلیہ اور آپ کا بیٹا حسین بھی تھا، آپ نے اپنی آخری تقریر میں اسلامی مزاحمت کو قائم و دائم رکھنے کے بارے میں گفتگو کی۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد جب سید عباس موسوی بیروت کے لئے روانے ہوئے تو جئب شئت پر گشت کرتے اسرائیلی ڈرون طیارے نے سید عباس کی گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں سید عباس موسوی، آپ کی اہلیہ ام یاسر اور آپ کا چھوٹا بیٹا حسین شہید ہوگئے۔
شہید سید عباس موسوی کی شہادت پر انقلاب اسلامی کے قائد حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ''سید عباس موسوی کی شہادت اسلامی مزاحمت کی راہ میں ایک اہم موڑ اور اسلامی مزاحمت کے ثمرات میں سے ایک ہے۔''