Aug ۲۹, ۲۰۱۸ ۱۵:۴۰ Asia/Tehran
  • غدیر خم میں کیا ہوا؟ایک طائرانہ نظر

غدیر خم میں کیا کچھ ہوا یہ جاننے کے لئے ایک مختصر مقالہ ملاحظہ فرمائیں!

واقعۂ غدیر خم

 

حجۃ الوداع 

ہجرت کا دسواں سال ، رسول خداؐکی عمر شریف کا آخری سال تھا ، جب آپ نے تمام اسلامی احکام کی تبلیغ فرما دی اور لوگوں کو دین اسلام کے احکام و معارف سے آشنا فرمادیا تو جبرئیل امین نازل ہوئے اور خداوندعالم کا درود وسلام پہونچا کر عرض کی: 

'' میں نے ہر رسول کی روح اس وقت قبض کی جب اس نے لوگوںمیں دین کے تمام احکام کی تبلیغ کردی تھی ، آپ کی وفات بھی نزدیک ہے اور ابھی دو اہم ترین احکام باقی رہ گئے ہیں جن کی عملی تبلیغ کرنا ضروری ہے : ایک فریضۂ حج اور دوسرے خلافت کے لئے حضرت علی بن ابی طالب کا تعین ''۔ 

چنانچہ جیسے ہی خداوندعالم کا حکم ہوا آپ نے حج کے لئے اپنے عزم صمیم کا اظہار فرمایااور آپ کے حکم سے تمام اسلامی مملکت میں یہ عمومی اعلان کردیاگیا کہ امسال آنحضرت ؐحج کے لئے تشریف لے جائیں گے ۔ لمحوں میں یہ فرحت انگیز خبر، بادصبا کے جھونکوں کی طرح صحرا صحرا اور بستی بستی تک پہونچ گئی ۔ لوگ برسوں سے انتظار میں تھے کہ دیکھئے نصیب کب جاگتا ہے اور کس قدر حج جیسی عبادت کے اعمال ، سرتاج انبیاء کے سایہ میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ۔ 

جب ان کو اچانک معلوم ہوا کہ سرکار رحمت کے برکت آفریں سفر کا اعلان کردیاگیاہے تو لوگوں کو اپنے دل کی مرادیں پوری ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگیں ، شوق کے دھارے نے تیزی پکڑی، فرط مسرت سے تار دل جھوم اٹھے، سو سینکڑوں نہیں ، ہزاروں کی تعداد میں لوگ جیتے جاگتے ارمانوں کے ساتھ ہادی برحق کی راہنمائی میں سر کے بل چلنے کو تیار ہوگئے ۔ 

مدینہ سے روانگی

تاریخ نگاروں کے مطابق ٢٦ذیقعدہ بمطابق ٢٢فروری ٢٣۳؁ء، ہفتہ کے دن اللہ کے آخری رسول نے غسل فرمایا ، پھر ایک اجلی اجلی تہمد باندھ کر سرکار نے صاف و شفاف سی اکہری چادر اپنے دوش اقدس پر ڈال لی اور ننگے پیر چل پڑے۔یہی وہ ہلکا پھلکا اور سیدھا سادہ لباس ہے جو آج بھی حریم کعبہ کا رخ کرنے والے ہر شاہ و گدا کو پہننا پڑتاہے ۔ 

آپ کے ہمراہ آپ کی ازواج بھی ہودجوں میں تھیں ، ان کے علاوہ آپ کے اہل بیت ، انصار و مہاجرین کی بڑی تعداد تھی ، عوام الناس اور قبائل عرب بھی حسب توفیق شامل تھے ۔ 

مدینہ سے مکہ تک کا یہ سفر دس دن میں طے ہوا ، بتایا جاتاہے کہ ٢٦ذیعقدہ ١٠ ھ، ہفتہ کے دن دوپہر کے وقت سرور کونین مدینہ منورہ سے چلے اور عصر کے ہنگام '' ذوالحلیفہ ''میں تھے۔ یہ جگہ مدینہ سے آنے والوں کی میقات ہے جو لوگ یثرب سے حج کے لئے جاتے ہیں انہیں یہاں رک کر حج کے قاعدوں پر عمل پیرا ہونے کی نیت کرنا پڑتی ہے اور یہیں سے احرام باندھا جاتاہے۔ 
اسی طرح رسول خداؐ مختلف راہ و منزل سے ہوتے ہوئے منگل کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ، خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر ہمارے پیارے رسول تھے اور عبادتیں تھیں ، اتنے میں حضرت علی بھی یمن سے آگئے ، آپ کی سربراہی میں بھی بہت سے لوگ مکہ پہونچے ۔اب یہ'' شہر خدا ''حد خیال تک خدائے بزرگ و برتر کے مشغول حق بندوں سے چھلک رہاتھااور رسول رحمت کے وجود کی گھنی چھائوں میں تکبیر و تقدیس اور تسبیح و تہلیل کی روح پرور صدائوں سے یوں لگ رہاتھا جیسے '' ام القریٰ '' زمین کے بجائے آسمانوں کی کوئی بستی ہو۔ 


غدیر میں شرکت کا باضابطہ اعلان 

فطری طور پرلوگوں کو اس بات کی توقع تھی کہ آنحضرت اپنے اولین و آخرین سفر حج میں کچھ دنوں تک مکہ معظمہ میں قیام فرمائیں گے لیکن مناسک حج کے اختتام کے فوراًبعد آپ نے بلال کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ معلول و معذور افراد کے علاوہ کل کوئی بھی مکہ میں نہیں رہے گا ، کل سبھی کو روانہ ہوناہے ۔شاید یہ حکم اس لئے دیاگیا تھا تاکہ ایک معینہ وقت پر سبھی میدان غدیر خم میں موجود رہیں۔آنحضرت کا حکم سنتے ہی تمام حجاج کرام نے مکہ کو الوداع کہا اور اپنے اپنے گھروں کے لئے روانہ ہوگئے۔ 


نزول آیۂ تبلیغ 

قافلۂ ولایت مکہ سے روانہ ہوااور جب'' کراع غمیم'' نامی جگہ پر پہونچا تو اسی وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول خداؐ کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا''اے رسول !اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوچکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا اور اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ''۔ 
جب خداوندعالم کا تاکیدی حکم آگیا تو رسول خداؐ نے لوگوں کو غدیر کے مقام پر جمع ہونے کی تاکید فرمائی اور بعض مخصوص اصحاب کو حکم دیا کہ وہ اونٹوں کے کجاؤں کا منبر بنائیں ۔اسی وقت ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ، آنحضرت نے جناب بلال کو بلا کرنے اذان کہنے کا حکم دیا ۔اور پھر لوگوں نے رسول کی قیادت میں اپنی زندگی کی سب سے یادگار نماز ادا کی ۔ رسول خداؐ فراز منبر پر 
پیغمبر خداؐنماز کے بعد کجاؤں کے بنائے گئے منبر پر تشریف لے گئے ،اپنی آواز لوگوں تک پہونچانے کے لئے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو حکم دیا کہ منبر کے پاس کھڑے ہو کر میرے کلمات کی تکرار کرو تاکہ جو لوگ منبر سے دور ہیں وہ بھی اس خطبہ کو سماعت کرسکیں۔پھر آپ نے حضرت علی کو بلاکر منبر کے داہنی طرف کھڑا کردیا ، سانسیں لوگوں کے سینوں میں رک چکی تھیں اور سب کی نگاہیں رسول خداؐ اور حضرت علی کی طرف مرکوز تھیں ، ایسا لگ رہاتھا جیسے اس وقت پوری کائنات کی تاریخ کا خلاصہ بیان کیا جارہاہو۔ آنحضرت نے فراز منبر پر پہونچ کر بلند آواز سے خطاب فرمایا: 

'' تمام تعریفیں خدا ہی کے لئے مخصوص ہیں ، ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں ، اسی پر ایمان لائے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ، ہم اپنی نفسانی شرارتوں اور اپنے برے اعمال سے خدا کی پناہ طلب کرتے ہیں ، وہ خدا جو گمراہ کی ہدایت نہیں کرتا اور ہدایت پسند کو گمراہ نہیں کرتا ، میں گواہی دیتاہوں کہ معبود برحق کے سوا کوئی خدا نہیں اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے ۔ 
اما بعد !اے لوگو!مجھے پروردگار لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ ہر نبی کی عمر اس کے پیش رو سے نصف ہوتی ہے ، مجھے جلد ہی بلا لیاجائے گا اور میں لبیک کہوںگا ، مجھ سے اور تم سے سوال کیاجائے گا ، تم کیا جواب دو گے ...؟ 

لوگوں نے کہا: ہم کہیں گے کہ آپ نے پیغام خداوندی پہونچا دیا اور نصیحت و تبلیغ رسالت میں جد و جہد کی ، خدا آپ کو جزائے خیر دے ۔ 

آنحضرت نے فرمایا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐاس کے رسول ہیں ، جنت و جہنم برحق ہے ، موت حق ہے ، قیامت آنے والی ہے اور خدا لوگوں کو قبروں سے اٹھائے گا ...؟ 

انہوں نے کہا: ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں ۔ 

آپ نے فرمایا : خدایا !تو گواہ رہنا ۔ 

پھر آنحضرت ؐنے خطاب فرمایا : لوگو!کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ 

جواب دیا :ہاں !ہم سن رہے ہیں ۔ 

فرمایا : میں حوض کوثر پر پہلے پہونچنے والا ہوں اور تم میرے پاس وہاں پہونچوگے ، اس کا پھیلاؤ صنعاء و بصرہ کے درمیان والی زمین کے برابر ہے ، اس میں ستاروں کی تعداد کے برابر چاندی کے پیالے ہیں ، ذرا غور کرو کہ تم میرے بعد ثقلین کی بابت کیا رعایت کروگے ۔ 

مجمع میں موجود ایک شخص نے عرض کی : یا رسول اللہ !ثقلین سے کیا مراد ہے ...؟ 

آپ نے فرمایا : ثقل اکبر خدا کی کتاب ہے ، اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تم لوگوں کے ہاتھ میں ہے ،اگر تم اس سے وابستہ رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ ثقل اصغر میرے اہل بیت ہیں ، رب لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے ساتھ وارد ہوں ، ان دونوں کے آگے بڑھنا یا پیچھے رہ جانا ہلاکت کا باعث ہے ۔ 

حدیث ثقلین کے بعد آنحضرت ؐنے امیر المومنین حضرت علی کو اپنے دونوں ہاتھوں پر بلند کرکے انتہائی مشہور و معروف فقرہ ارشاد فرمایا جسے حدیث غدیر کہتے ہیں۔ 

حدیث غدیر 

آنحضرت نے حضرت علی ؑکو بلند کرکے فرمایا : 

ان اللہ مولای و انا مولی المومنین و انا اولیٰ بھم من انفسھم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ ''خدا میرا مولا ہے ، میں مومنین کا مولا ہوں اور خود ان سے زیادہ ان پر اختیار رکھتاہوں پس جس کا میں مولاہوں اس کے یہ علی مولا ہیں ''۔اللھم وال من والاہ و عادمن عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث دار ''خدایا !جو علی سے محبت کرے اسے تو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے اس سے تو بھی دشمنی کا برتاؤ/ کر ، علی کی نصرت کرنے والوں کی مدد فرما اور جو لوگ علی سے روگردانی کریں ان سے توبھی منہ موڑ لے اور پالنے والے !علی جدھر کا رخ کرے تو حق کو اسی طرف موڑ دے ''۔ 

رسول خداؐکے اعلان ولایت کے بعد مجمع اپنی جگہ سے متفرق بھی نہیں ہوا تھا کہ جبرئیل امین آیۂ مبارکہ لے کر نازل ہوئے :'' آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو ، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے دین اسلام سے راضی و خوشنود ہوگیا''۔ 

جیسے ہی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے آنحضرتؐ نے ببانگ دہل مسرت آمیز لہجہ میں فرمایا: 
اللہ اکبر علی اکمال دین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی والولایہ لعلی من بعدی ''اللہ کی شان کہ اس نے دین کامل اور نعمت تمام کردی ، پروردگار میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے راضی و خوشنود ہوگیا''۔ 

عہد و میثاق اور عمومی بیعت 

خطبہ کے بعد رسول خداؐ نے لوگوں سے عہد و میثاق لیا اور پھر تمام لوگوں کی خصوصی تاکید فرمائی کہ وہ حضرت علی کو اس عظیم عہدے پر فائز ہونے کی مبارک باد پیش کریں اور ان کی بیعت کریں ۔ 

زید بن ارقم کہتے ہیں کہ سرکاررسالت کےحکم دیتے ہی لوگ جوق در جوق منبر کی طرف بڑھے ، سارے مجمع نے ایک آواز ہوکر عرض کی: بسر و چشم !ہم دل و جان سے اللہ اور اس کے رسول کا حکم بجا لائیں گے ۔لیکن آنحضرت نے صرف زبانی اقرار بیعت پر اکتفا نہیں کی بلکہ عملی بیعت کا شاندار اہتمام فرمایا ، چنانچہ تاریخ کے مطابق آپ نے دو خیمے نصب کروائے ، ایک میں خود بہ نفس نفیس رسول خداؐ تشریف فرما ہوئے اور دوسرے میں علی بن ابی طالب علیہما السلام کو جلوہ افروز فرمایا ، پھر لوگوں کو حکم دیا کہ پہلے میرے خیمہ میں آکر بیعت کریں اور مجھے تبریک و تہنیت پیش کریں پھر دوسرے خیمہ میں علی کے پاس جاکر امامت و خلافت کے عنوان سے ان کی بیعت کریں ،امیر المومنین کہہ کرسلام کریں اور انہیں تبریک و تہنیت پیش کریں۔ 
یہ حکم سنتے ہوئے تمام حاضرین نے مبارک سلامت کے شور میں علی بن ابی طالب کی بیعت کرنا شروع کردی ۔ آنحضرت نے مردوں کے بعد عورتوں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی تبریک و تہنیت میں پیچھے نہ رہیں اور آگے بڑھ کر امام کے عنوان سے علی کی بیعت کریں ۔ 

جن لوگوں نے امیر المومنین کو مبارکباد پیش کی ان میں سر فہرست ابو بکر ، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور طلحہ و زبیر تھے ، ان کی تہنیت کے الفا ظ یہ ہیں:ھنیئا لک یابن ابی طالب اصبحت مولای و مولا جمیع المومنین والمؤمنات ''اے ابو طالب کے فرزند! آپ کو مبارک ہو ،آپ میر ے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا ہو گئے ''۔ 

بیعت کے ہنگامہ خیز ماحول میں ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی گئی نیز مغرب تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہا تو مغرب و عشاء کی نماز بھی ایک ساتھ ادا کی گئی ۔ 

ابن عباس نے اس خصوصی اہتمام اور خوشگوار فضا کو دیکھ کر مسرت آمیز لہجہ میں کہا : وجبت واللہ فی اعناق القوم ''خدا کی قسم !سب کی گردنوں پر علی کی بیعت واجب ہوگئی ''۔ 

یہ تھا واقعہ غدیر خم کا اجمالی خاکہ ، جس کی تفصیل کو فریقین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ، مآخذ سے آشنائی حاصل کرنے کے لئے علامہ امینی کی گرانقدر کتاب "الغدیر " کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ 

بشکریہ : سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

 

ٹیگس