علم غیب کس کے پاس ہے؟
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ¤ ﴿انعام 59﴾
ترجمہ: اور غیب کی چابیاں صرف اسی (خدا) کے پاس ہیں، اور انہیں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندر میں ہے۔ اور (درخت سے) کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتا ہے۔ اور کوئی بھی دانہ زمین کی تاریکیوں میں اور کوئی تر اور خشک ایسا نہیں ہے مگر اس کا علم کتاب مبین میں (درج) ہے۔
تفســــــــیر قــــرآن:
چونکہ خداوند عالم ہر چیز سے واقف اور کائنات کی تمام جزئیات سے باخبر ہے لہٰذا ہمیں اپنے اعمال کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
خدا کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے علم غیب نہیں جانتا (وعندہ)
ہو سکتا ہے پتوں کے گرنے سے مراد "نزولی حرکات” ہوں اور دانہ کے زمین کے اگنے سے "صعودی حرکات” مراد ہوں۔ (تفسیر فی ظلال القرآن)
کائنات میں معلومات کا ایک مرکز موجود ہے (کتاب مبین)
نظام کائنات، باقاعدہ منصوبہ کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ (کتاب مبین)
تفسیر نور، محسن قرائتی