عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
عصر غیبت میں منتظِر سماج پر کچھ اہم فرائض عائد ہوتے ہیں جن سے واقفیت منزل کمال تک رسائی کے لئے بے حد ضروری ہے۔
جس زمانے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اسے عصر غیبت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔عصر غیبت یعنی ایسا زمانہ جب دنیا میں موجود حجت اور خلیفۂ خدا نظروں سے اوجھل ہے اور دنیا والے اسکی آمد اور اسکے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایسے دور میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ افراد جو اپنے امام، پیشوا، آقا و مولا یا حجت خدا کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اپنے امام کے سلسلے میں ان پر کون سے فرائض عائد ہوتے ہیں؟ دینی متون یعنی آیات اور روایات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اہم ذمہ داریاں منتظِر معاشرے پر عائد ہوتی ہیں جن کو مختصرا یہاں پیش کرتے ہیں:
۱۔ نظروں سے اوجھل خلیفہ خدا اور حجت حق جس دین کا رہنما اور ہادی ہے سب سے پہلے اس دین کی معرفت اور پہچان ضروری ہے۔ اس لئے دینی عقائد و احکام ، اور فرائض سے آگاہ ہوا جائے کیوں کہ فرائض سے آگاہی ہی انسان کو اپنے امام کی راہ کی جانب گامزن کر سکتی ہے۔
۲۔ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں، اس سوال کا جواب ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے۔ یعنی جس ہستی کا انتظار ہو رہا ہے اسے پہچانے اور اسکے اوصاف و کمالات اور اسکی شخصیت کی شناخت و معرفت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کسی کی شناخت اور معرفت کے بغیر اسکی حقیقی محبت کو دل میں پیدا کرنا نا ممکن ہے۔
۳۔ قرآن کریم اور اہل بیت علیہم السلام کے فرامین اور ہدایات کے مطابق زندگی گزاری جائے۔کیوں کہ انتظار اُس ہستی کا کیا جا رہا ہے جو مستقبل قریب میں دین الٰہی کو دنیا میں عام کرے گا اور اس میں دینی احکامات کو نافذ کرے گا۔اس سنہرے دور کے لئے اگر ہم آمادہ ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لئے دین کی تعلیم کردہ ہدایات کے مطابق زندگی گزارنا لازمی ہے۔
۴۔ غیبت کے زمانے میں کہ جب امام اور حجت خدا نظروں سے اوجھل ہے، دینی فرامین کی وضاحت اور اسکی تبلیغ و تشہیر کی ذمہ داری علماء کرام بالخصوص مراجع تقلید پر رکھی گئی ہے۔خود امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف نے اپنی غیبت کے ابتدائی ایام میں پیروان راہ حق کی رہنمائی علما کی جانب فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ با تقوا علمائے حق کی پیروی کریں اور اپنی زندگی کے مسائل میں ان کی جانب رجوع کریں۔مراجع تقلید بالخصوص ولی فقیہ کو امام معصوم کی نیابت کا درجہ حاصل ہے۔
۵۔چونکہ عقیدۂ مہدویت صرف مسلمانوں یا شیعوں سے مخصوص نہیں ہے اور ایک ’’منجی‘‘ کے انتظار کا تصور دیگر مکاتب فکر میں بھی پایا جاتا ہے،اس لئے ضروری ہے کہ ان سے بھی مل جل کر رہا جائے اور ان کے ساتھ رواداری برتی جائے تاکہ پوری بشریت ایک ساتھ مل کر عالمی سطح پر مہدوی سماج کی تشکیل کے لئے زمین ہموار کر سکے۔در حقیقت عقیدۂ مہدویت ایک ایسا عنصر ہے جو اقوام عالم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر سکتا ہے۔
۶۔ دین کی نشر و اشاعت اور اسکی تشہیر و تبلیغ میں ہر شخص اپنا کردار ادا کرے اور اس فریضے کو صرف علمائے کرام سے مخصوص نہ سمجھا جائے۔
۷۔ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں دین پر عمل کرے اور تقوا و پرہیزگاری کو سر فہرست قرار دے اور اس بات پر یقین رکھے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی رضا کا حصول دینداری کے بغیر نا ممکن ہے۔
۸۔ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو علما اور دانشوروں کی مدد سے فوری طور پر حل کیا جائے۔ کیوں کہ شکوک و شبہات اور بالخصوص دشمنان اسلام کی جانب سے پیدا کئے جانے والے سوالات کو اگر بر وقت جواب نہ ملے تو راہ ہدایت سے انسان کے منحرف ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے اور ایسے میں اسے بڑی سنگین قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
۹۔ دور حاضر کی سخت اور دشوار زندگی کے تمام مراحل میں نا امیدی کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے ذہن و دل میں رخنہ ڈال سکے اور وعدۂ خدا پر عقیدہ رکھتے ہوئے امید کے دئے کو ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں روشن رکھا جائے۔
۱۰۔ زندگی کے سخت مراحل میں صبر و تحمل اور حوصلے سے کام لیا جائے اور فضل و رحمت پروردگار پر بھروسہ کرتے ہوئے کوشش کی جائے کہ دامن صبر ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
۱۱۔اپنے دل کے ساتھ ساتھ دوسروں کے دلوں میں امام زمانہ کی محبت اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے۔
۱۲۔اپنے آقا و مولا سے اظہار محبت کے ساتھ ساتھ کوشش یہ کی جائے کہ انہیں ہم اپنے اعمال سے رنجیدہ خاطر نہ ہونے دیں، کیوں کہ روایات کے بقول ایک امام اپنی قوم اور امت کے تئیں ایک ماں سے بڑھ کر مہربانی اور پاکیزہ جذبات کا حامل ہوتا ہے۔ اسے جہاں ہماری نیکیوں پر خوشی ہوتی ہے وہیں ہماری لغزشوں پر افسوس ہوتا ہے۔ اس لئے انکے ظہور اور سلامتی کی دعا، دعائے عہد اور ندبہ کی تلاوت اور سب سے بڑھ کر اپنے دینی فرائض کی انجام دہی اظہار محبت کا بہترین طریقہ ہو سکتے ہیں۔
۱۳۔ دین، ایمان، اسلامی ثقافت، حیا اور اخلاق و کردار کو نشانہ بنانے والے دشمنان اسلام اور سامراجی طاقتوں کے منصوبوں سے ہوشیار رہا جائے۔ظاہر ہے کہ ان کا مقصد دنیا میں باطل عقائد کی ترویج، فساد و عریانیت اور اختلافات کو عام کرنا ہے۔ ان کے مسموم منصوبوں کے مقابلے میں ایک درست اور متقن لایحۂ عمل کے تحت واحد قیادت کے سائے میں آگے بڑھا جائے۔
۱۴۔یاد رکھئے کہ کوئی بھی قوم بغیر رہبر اور قائد کے اپنی منزل مقصود کو نہیں پا سکتی ہے۔ اس لئے امام کے دور غیبت میں بغیر قائد اور رہبر کے ایک قوم باعزت، مضبوط، سربلند اور کامیاب نہیں بن سکتی۔
اس لئے لازم ہے کہ قوم ایک دیندار،پرہیزگار، سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل اور دشمن کی شناخت رکھنے والے بابصیرت قائد کا انتخاب کرے۔جن اقوام کے یہاں واحد قیادت کا تصور نہ پایا جاتا ہو وہ کبھی کامیابی و کامرانی اور سعادت کا منھ نہیں دیکھ سکتی۔