پیغمبر اسلام (ص) اور عمل
نبی خدا حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے امت کو کام کاج، محنت مزدوری اور عملِ خیر کی جانب ترغیب دلائی ہے اور اسے راہ خدا میں جد جہد سے تعبیر فرمایا ہے۔
ایک روز پیغمبر اسلام (ص) اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ نے ایک نوجوان شخص کو دیکھا جو صبح سویرے اٹھ کر کام کاج میں مصروف ہے۔ مزاج اسلام و پیغمبر سے غافل بعض اصحاب اُس نوجوان کو دیکھ کر بولے: اگر یہ نوجوان اپنی جوانی کو راہ خدا میں بسر کرتا تو کتنا اچھا ہوتا اور لائق تعریف ہوتا۔
آنحضرت (ص) نے جب انکی یہ بات سنی تو فرمایا: ایسا مت کہو؛ اگر یہ نوجوان اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے اور دوسروں سے بے نیاز رہنے کے لئے کام کر رہا ہے تو یہ درحقیقت راہ خدا میں قدم آگے بڑھا رہا ہے، اسی طرح اگر یہ شخص اپنے ناتواں ماں باپ یا کمسن بچوں کو دوسروں سے بے نیاز بنانے کے لئے مصروف عمل ہے تب بھی اس شخص کا یہ عمل راہ خدا میں انجام پا رہا ہے۔
دین اسلام میں عمل، کام کاج، محنت مزدوری اور جدو جہد کو نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ایک اور حدیث شریف میں پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
یتبع المیّت ثلاثة: أهله وماله وعمله، فیرجع اثنان و یبقی واحد؛ یرجع أهله و ماله و یبقی عمله، (کنز العمال،ح 42761(؛ انسان کی جب موت واقع ہو جاتی ہے تو تین چیزیں (قبر تک) اسکی ہمراہی کرتی ہیں؛ اسکے اہل و عیال، اسکا مال اور اسکا عمل۔ ان میں سے دو واپس آ جاتی ہیں جبکہ ایک شیء اسکی قبر میں اسکے ساتھ رہتی ہے؛ اسکے اہل و عیال اور مال واپس آجاتے ہیں جبکہ اسکا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔
در حقیقت انسان کا ہر عمل اسکا نہ چھٹنے والا ایک ساتھی ہوتا ہے؛ اب اگر عمل نیک ہوگا تو اسکا ساتھی نیک اور اگر اُس کا عمل برا ہوگا تو اُس کا ساتھ دینے والا بھی برا ہی ہوگا؛ یعنی یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ قبر سے لے کر آخرت تک کیسا ساتھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے، ایسا کہ مشکل وقت میں اُس کے کام آئے یا پھر ایسا جو خود اُس کے لئے مشکلات کا باعث بن جائے!