Jul ۰۶, ۲۰۲۱ ۱۲:۳۳ Asia/Tehran
  • مومنو! اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو!

پردہ ایک با اخلاق، با ایمان، با حیا، پاکیزہ اور اسلامی زندگی گزارنے کے لئے ایک واجب فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے محقق ہونے میں مرد اور خواتین دونوں کا مساوی کردار ہے اور دونوں کو ہی کچھ باتوں اور نزاکتوں کا خیال رکھنے کا پابند بنایا گیا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں پردے کے سلسلے میں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں کچھ ہدایات کی گئیں ہیں، اُن ہدایات سے قبل خدائے سبحان نے مردوں کو مخاطب کر کے انہیں پردے کے سلسلے میں انکے بظاہر چھوٹے مگر اہم فرض کی جانب متوجہ کیا ہے۔

اگر خواتین سے کہا گیا ہے کہ ’’وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ‘‘؛ یعنی اے پیغمبر! آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں، سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے، اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں...‘‘،

تو وہیں پر پہلے مردوں سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ بھی پردے کے صحیح نفاذ کے لئے اور اسکے مکمل محقق ہونے کے لئے اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں...‘‘ 

ارشاد ہوتا ہے: قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ؛ ’’اے رسول! آپ مومنین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں...‘‘! (نور/۳۰)

وہ پردہ اور حجاب جو اسلام و قرآن کا مطمع نظر ہے، سماج میں صحیح، مکمل اور مؤثر طریقے سے اُسی وقت محقق ہو سکتا ہے جب مومنین اور مومنات یا خواتین و حضرات یکساں طور پر اس حوالے سے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ صرف خواتین یا صرف مردوں سے مکمل پردے کے محقق ہونے کی توقع رکھنا فضول ہے۔

خواتین کے پاپردہ ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ سماج کے مردوں کی ذمہ داری ختم ہو گئی، نہیں! بلکہ باپردہ نامحرموں کے سامنے بھی انہیں اپنی نگاہیں نیچی رکھنی ہوں گی تاکہ پردے میں نہاں اسکے پاکیزہ اثرات و نتائج رونما ہو سکیں اور دونوں یعنی مرد اور خاتون پردے کے حوالے سے اپنی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کر سکیں۔

اسی طرح اگر خواتین پردے کا خیال نہ رکھتے ہوئے سماج میں یا نامحرم افراد کے سامنے ظاہر ہو رہی ہیں، تو ایسا نہیں کہ مردوں کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی، نہیں! بلکہ مردوں کی ذمہ داری اپنی جگہ باقی ہے اور وہ یہ کہ وہ بے پردہ خواتین کے سامنے اپنی نگاہیں جھکا کر خود پردے کا خیال رکھیں اور بے پردگی کا شکار نہ ہوں۔

اسی کے ساتھ ساتھ اگر خواتین پردے کا خیال رکھتے ہوئے سماج میں  یا نامحرم کے سامنے ظاہر ہوں، مگر مرد اور نامحرم حضرات اپنی نگاہیں نیچی نہ کریں تو گویا مرد بے پردگی کا شکار ہوئے ہیں۔

بالفاظ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک صورت وہ ہے جس میں مرد اور خواتین دونوں پردے کا خیال رکھتے ہیں،ایک دوسری صورت وہ کہ جس میں خواتین بے پردگی جیسے گناہ کی مرتکب ہو رہی ہیں جبکہ تیسری صورت وہ ہے جس میں مرد بے پردگی کا گناہ مول لے رہے ہیں۔ یعنی جس طریقے سے باپردہ یا بے پردہ خواتین ہوتی ہیں اسی طریقے سے باپردہ اور بے پردہ مرد بھی ہوتے ہیں۔

آیات الٰہی میں ایک قابل غور بات یہ ہے  کہ پردے سے متعلق آیات میں خدائے حکیم نے خواتین سے پہلے مردوں کو مخاطب کر کے انہیں پردے کا پابند رہنے کی ہدایت کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پردے کے امر میں مردوں کے کردار کی خاص اہمیت ہے۔

(تحریر:باقر کاظمی)

ٹیگس