Jul ۲۱, ۲۰۲۱ ۰۵:۰۰ Asia/Tehran
  • عيد قربان سنت ابراھيم عليہ السلام

عید الاضحیٰ جسے عید قربان یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے، اسلامی کیلینڈر کے مطابق بارہویں مہینے کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ یہ عید درحقیقت اظہار عبودیت و بندگی کا دن ہے۔ اس دن بندہ خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنے رب کی بارگاہ میں قربانی کرکے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے دین، آئین اور رب کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے-

 جناب ابراھيم (ع) نے خواب ديكھا كہ وہ اپنے فرزند اسماعيل كو ذبح كر رہے ہيں ۔ جس كا مطلب يہ تھا كہ خداوند عالم چاہتا ہے كہ ابراھيم اپنے فرزند كو ذبح كريں ۔

 جناب ابراھيم (ع) اپنے اس خواب كو پورا كرنے كے لئے مكہ تشريف لائے اور جناب اسماعيل(ع) كو خداوند عالم كا يہ حكم سنايا : فَلَما بَلَغَ مَعَهُ السَعىَ قالَ يابُنَىَّ اِنّى اءَرى فِى المَنامِ اءَنّى اَذبَحُكَ فَانظُرماذاتَرى ، قالَ يا اَبَتِ افعَل ماتُؤ مَرُ سَتَجِدُنى اِن شاءَ اللهُ مِنَ الصابِرينَ (سورۂ صافات ،آيت / ۱۰۲) جناب اسماعيل (ع) نے اپنے رب كے حكم كے آگے سر تسليم خم كر ديا اور فرمايا : بابا جان! مجھے ذبح كرنے سے پہلے میرے ہاتھ پاؤں مضبوطي سے باندھ ديں ، خدا كا حكم بجالانے ميں سستي نہ كريں تاكہ اجر ميں كمي نہ واقع ہو ، میرا پيراہن خون آلود نہ ہونے پائے اس لئے كہ ميری ماں شايد ميرا خون آلود پيراہن ديكھ كر صبر نہ كرسكے ۔ بابا جان! چاقو تيز كر ليں تاكہ ذبح ہوتے وقت مجھے زيادہ تكليف نہ ہو ۔ بابا جان! میرا پيراہن لے جاكر ماں كے حوالے كرديں تاكہ انھيں تسلي ہو جائے ۔ مجھے منھ كے بل لٹا ديں اور آنكھوں پر پٹی باندھ ديں تاكہ میری آنكھ ديكھ كر آپ پر شفقت نہ طاري ہونے پائے كہ شايد شفقت پدری حكم الٰہي كے نافذ ہونے ميں مانع ہو جائے ۔ 

جناب ابراھيم (ع) نے اسماعيل (ع) كي تمام تدبيروں كو نظر ميں ركھتے ہوئے اسماعيل کے گلے پر خنجر چلايا ليكن گلا نہ كٹ سكا ۔ حضرت ابراہيم (ع) نے دوبارہ كوشش كي ليكن كامياب نہ ہوئے يہاں تك كہ جب آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو دیکھا کہ حضرت اسما‏عیل کی جگہ ایک دنبہ موجود ہے خداوند عالم نے ابراھيم عليہ السلام پر يہ وحي نازل كی " يا اِبراهيمُ قَد صَدَّقتَ الرُّءيا اِناكَذلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ " اے ابراھيم تم نے اپنا خواب سچ كر دكھايا ، ہم محسنين كو ايسي ہي جزا عطا كرتے ہيں ۔

يہي وہ واقعہ ہے جس كي ياد ميں ہم عيد قربان مناتے ہيں اور قربانی كرتے ہيں گويا يہ عيد بكرا،گائے ،دنبہ یا اونٹ قربانی كرنے كے لئے نہيں بلكہ اپني عزيزترين چيزوں كو قربان كرنے كي عيد ہے ۔

اس ميں انسان اپني خواہشات كي قرباني كرے ، نفس امارہ كي قرباني كرے ۔ فرزند سے زيادہ كوئي چيز عزيز نہيں ہوتي ہے ہم اپنے فرزند كي نہيں تو كم سے كم جناب اسماعيل(ع) كي قرباني كي ياد ميں اپني عزيز ترين آرزؤوں كو تو قربان كرسكتے ہيں تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوندعالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پرعمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے. عربی زبان میں قربانی کو ”اضیحہ“ کہتے ہیں  لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس میں قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانورکو کہتے ہیں جس کو عیدالاضحی (بقرعید کے روز) بارہویں یا تیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یا نحر کرتے ہیں- 

ہجری قمری کلینڈر کے 12ویں مہینے ذی الحجہ کی 10 تاریخ عید کا دن ہے، یہ مسلمانوں کی عظیم عیدوں میں سے ایک ہے۔

یہ محبت اور قربانی کو ثابت کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ایک انسان اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں اپنے کو پست ترین ہونے کا اعتراف کرتا ہے اور اپنا سب کچھ اللہ اور اس کی عبادت پر قربان کر دیتا ہے اور پیروی اور اطاعت کا جو صحیح پہچان اور شناخت کا نتیجہ ہے، مظاہرہ کرتا ہے۔

اس دن خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے قربان کرنے کے لئے لے کر نکلتے ہیں۔ اس عظیم امتحان الہی میں وہ کامیاب ہوئے۔ انہوں نے قربان تو اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو کیا لیکن ان کی جگہ ایک بھیڑ قربان ہوگئی۔ اس کے بعد سے جب بھی حاجی حج کرنے مکہ جاتے ہیں اپنے حج کے آخری مرحلے میں قربانی کرتے ہیں۔

حاجیوں اور دیگر افراد کا اس دن قربانی کرنا در حقیقیت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس معنوی قربانی کے احترام کے لئے ہے جس کے تحت وہ عشق الہی میں قربان ہونے کے لئے آخری مرحلے تک پہنچ گئے۔  

انہوں نے اپنی اس وفاداری اور عظیم عشق کی یاد ہمیشہ کے لئے دلوں میں بسا دی۔ عید الاضحی در حقیقت سب سے عظیم ہستی یعنی اللہ کے حضور اپنی سب سے محبوب چيزوں کو قربان کرنے کا دن ہے۔ عید قربان الہی نعمت کا سرچشمہ اور نیک بندوں پر الہی رحم و نعمتوں کا بہانہ ہے۔ جو بھی اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی پر قربان کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے نیز اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنی خواہشات کو قربان کر دیتا ہے وہ بندگی کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔

 

ٹیگس