ثانی زہرا حضرت زینب کبری (س) کا یوم ولادت، ایران میں آج نرس ڈے
سحر عالمی نیٹ ورک حضرت زینب (س) کی ولادت با سعادت اور نرس ڈے کے اس پر مسرت موقع پر اپنے تمام سامعین، ناظرین، قارئین اور بالخصوص سبھی نرسوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہے۔
سحر نیوز/مناسبت: بنت علی، ثانی زہرا، شریکہ الحسین، حضرت زینب علیہا سلام کی ولادت باسعات پانچ جمادی الاولیٰ سنہ پانچ ہجری کو ہوئی، ایران میں اس دن کو نرس ڈے کا نام دیا گیا ہے۔
تحریک کربلا میں آپ کے آفاقی کردار اور روز عاشور اور بعد عاشور کے کوہ شکن حالات میں آپ کی جانفشانیوں اور بیمار امام اور بچوں کی دیکھ بھال اور تیمار داری کے باعث آپ کے یوم ولادت کو ایران میں نرس ڈے کا نام دیا گیا ہے۔اس دن پورے ملک کی نرسوں کی خصوصیت کے ساتھ قدردانی کی جاتی ہے اور بیماروں کی صحت سلامتی کے لئے انکی جد جہد اور جانفشانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
بضعۃ الرسول، حضرت فاطمۃ الزہراء کی لخت جگر حضرت زینب کبریٰ (س) وہ عظیم ہستی ہیں کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود آج تک جن کا کوئی ثانی نہیں ۔
آپ کا نام بھی آپ کے جد نامدار حضرت محمدؐ نے “زینب” رکھا؛ یعنی باپ کی زینت۔ آپ کے مختلف القاب میں سے “عقیلہ” سب سے مشہور ہے۔ آپ ماں باپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔
آپ حیا میں حضرت خدیجہ (س) کی مانند، عفت میں اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ (س) جیسی اور فصاحت و بلاغت میں اپنے والد گرامی کی شبیہ تھیں، حلم اور غیر معمولی صبر میں آپ اپنے بھائی حضرت حسنؑ سے مشابہت رکھتی تھیں اور بہادری و قوت قلبی میں آپ حضرت حسینؑ کی مانند تھیں۔
آپ کی نشو و نما مدینے میں حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ (س)، حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ کے ہاتھوں انجام پائی۔ ابتدا میں آپ نے رسول خدا (ص) کے سایۂ پرنور میں پھر حضرت فاطمہ (س) و حضرت علیؑ کے زیر سایہ پرورش پائی ۔ بنابرایں آپ نے رسالت و امامت کے گھرانے میں آنکھ کھولی اور آپ نبوی، علوی اور فاطمی خصائص و کمالات کی وارث قرار پائیں۔
آپؑ نے کوفہ کے کون شکن حالات اور اسیری کی دوران جو خطبے دیئے، ان سے بنو امیہ کے ہاتھوں کربلا میں سیدالشہداء کی شہادت اور دوسرے تمام جرائم برملا ہوئے۔ آپؑ نے بنو امیہ کے فریب، دھوکے بازی اور ان کے ظلم و ستم کی حقیقت کو فاش کیا۔ ظالم، غاصب اور فریب کار حاکموں کی طاقت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی آپ نے تہجد کو ترک نہیں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ ’’عابدۂ آل علی‘‘ کہلائیں۔
فاتح خندق و خیبر حضرت علی علیہ السلام کی شیردل بیٹی زینب کبرٰی علیہا السلام کا اگر کربلا میں کردار نہ ہوتا تو مکتب کربلا، کربلا کے بیابان ہی میں گم ہوجاتی اور آج محبت خدا، حق و حقیقت، شعور و بصیرت، حریت و جوانمردی، صبر و شجاعت، ایثار و فداکاری اور انسانیت جیسی بے شمار قدریں اپنا صحیح مفہموم دنیا کو سمجھانے سے قاصر رہ جاتیں۔