جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود...، اشعار/علامہ اقبال (ویڈیو)
اینٹوں اور پتھروں کی دنیا میں تو صرف اینٹ اور پتھر ہی کا نیا جہان سجایا جا سکتا ہے مگر نئے نظام اور نئے افکار کے حامل جہان کو صرف نئے انسانی خیالات و افکار سے ہی سجایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ملاحظہ ہو علامہ اقبال کے چند ایک اشعار۔
تخلیق
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
معانی: جہان تازہ: نئی دنیا ۔ افکار تازہ: نئے خیالات ۔ نمود: ظہور ۔ سنگ و خشت: پتھر اور اینٹ ۔ پیدا: بننا۔
مطلب: یہاں علامہ نے افکار کی دنیا کی بات کی ہے نہ کہ اس دنیا کی جس میں ہم رہتے ہیں اور کہا ہے کہ افکار کے جہان میں نئے نئے خیالات سے نئے نئے جہان ظہور میں آتے ہیں ۔ یہ اینٹوں اور پتھروں کا جہان جس میں ہم رہتے ہیں اس میں تو اینٹ اور پتھر ہی کا نیا جہان بن سکتا ہے۔ لیکن ایسا جہان جس میں نیا نظام اور نئے افکار ابھریں صرف انسانی خیالات اور فکر کے نیا پن سے پیدا ہوتا ہے۔
خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے
اس آبجو سے کیے بحرِ بیکراں پیدا
معانی: عزم و ہمت: ارادہ اور حوصلہ ۔ آبجو: ندی ۔ بحر بیکراں : ایسا سمندر جس کا کنارہ نہ ہو۔
مطلب: جو لوگ اپنی خود معرفتی اور خود شناسی کے دریا میں غوطہ لگائے ہوئے ہیں وہ لوگ ایسے ارادے اور اتنے حوصلے کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کی ندی کو اپنے خیالات و افکار کی تازگی کی بنا پر ایک ایسا سمندر بنا دیتے ہیں جس کا کوئی کنارہ نہ ہو۔ یعنی ان کے عزم اور ان کی ہمت کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ ایسے نئے نئے جہان ہائے خیالات و افکار پیدا کرتے رہتے ہیں جس سے آدمیت کا شرف بڑھتا ہے۔
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمرِ جاوداں پیدا
معانی: زمانے کی گردش: کہتے ہیں زمانہ گردش میں رہتا ہے جس سے دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں۔ غالب آنا: فتح پانا۔ نفس: سانس۔ عمر جاوداں: ہمیشہ کی زندگی۔
مطلب: زمانہ اگر اپنی گردش کی وجہ سے ناموافق ہو تو اس کی ناموافق گردش پر وہی شخص غلبہ پا سکتا ہے اور اسے موافق گردش پر لا سکتا ہے جو اپنی ایک ایک سانس سے ہمیشہ کی زندگی پیدا کرے۔ یعنی ہر لمحہ کو اپنی ہمت اور کوشش سے حرکت زمانہ کو بدلنے میں لگائے رکھے ۔ اور عزم و حوصلہ کو نہ چھوڑے۔ ایسا وہی کر سکتا ہے جس کی خودی بلند و ارفع ہو ۔
اسی کلام کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں:
خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا
معانی: مشرق کی سرزمین: ایشیا اور افریقہ کے ملک۔ رازداں: راز پانے والا۔
مطلب: علامہ کہتے ہیں کہ میں نے مشرق کے ممالک یعنی افریقہ اور ایشیا کے ملکوں میں دیکھا ہے یہاں نہ لوگوں کے انفرادی خودی بیدار ہے اور نہ جماعتی و ملکی بے خودی آشکارا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کمزور بھی ہیں اور غلام بھی ہیں۔ اگر ان میں ایک شخص بھی ایسا پیدا ہو جائے جو خودی کا بھید جاننے والا اور خود مالک خودی ہو تو مشرق ملکوں کی تقدیر بدل سکتی ہے اور زمانے کی گردش کو بھی وہی شخص روک کر اپنے موافق کر سکتا ہے اور یہ مالک خودی اللہ کوئی برگزیدہ و چیدہ بندہ ہو گا۔ وہ جو درویشی اور فقر کے ملک کا شہنشاہ ہو گا جس میں تقدیریں بدلنے کی صلاحیت موجود ہو گی۔ لیکن خدا جانے خدائی اور خودی کا ایسا رازدان کیوں پیدا نہیں ہو رہا ۔
ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے
عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا
معانی: ہوائے دشت: بیابان کی ہوا۔ بوئے رفاقت: ساتھی ہونے کی خوشبو۔ ہم عناں: ہم زمان، ہم خیال اور ہم کار۔
مطلب: بیابان کی ہوا سے مجھے دوستی اور ہم خیالی کی خوشبو آ رہی ہے۔ کوئی عجب نہیں اگر مجھے یہاں میرے ہم نوا ہم خیال اور ہم کار مل جائیں ۔ بیابان مشرق ممالک کو کہا ہے اور اپنی شاعری کو ایک ایسی نوا کہا ہے جو ان کو جگانے کے لیے کی گئی ہے۔ شاعر کو یقین ہے کہ اس کی شاعری کے ذریعے مشرقی ممالک میں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا ہو جائیں گے جو اس کی طرح کے افکار و خیالات رکھتے ہوں گے۔
(بشکریہ: اقبال رہبر ڈاٹ کام)