Dec ۰۸, ۲۰۲۲ ۱۵:۰۵ Asia/Tehran

شاعر مشرق، فخر برصغیر علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں خودی یا معرفت نفس پر خاصی توجہ دی ہے اور مختلف انداز میں بشر کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ درج ذیل چند اشعار میں بھی علامہ نے خودی کو بڑے دلچسپ انداز میں موضوع گفتگو بنایا ہے۔

تیاتر (تھیٹر)

تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود

حیات کیا ہے اسی کا سرور و سوز و ثبات

معانی: تیاتر: انگریزی لفظ تھیٹر کا اردو بنایا ہے۔ مطلب تماشہ گاہ، خصوصاً اسٹیج پر دکھانے والا تماشا۔ حریم وجود: وجود کا گھر۔ ثبات: قائم رہنا، پائیداری، خودی: اپنی معرفت، حیات۔ سوز: جلن۔ سرور: مستی، خوشی۔

مطلب: یہاں علامہ نے آدمی کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تیری ہستی کا گھر خودی (خودشناسی، خود معرفتی) سے روشن ہے۔ زندگی جسے کہتے ہیں وہ اسی خودی کی خوشی، تپش اور پائیداری کا نام ہے۔ یعنی خودی انسانی زندگی جس میں یہ صفات پیدا کرتی ہے اور اس کے جسم کے گھر کو روشن رکھتی ہے۔

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

معانی: بلند تر: بلند مرتبہ۔ مہ و پرویں : چاند اور تارے۔ پیدا: ظاہر۔ مقام: مربتہ۔ وجود: ہستی۔ صفات: کسی صفت کی جمع۔

مطلب: خودی کے نور سے آدمی کی ذات اور اس کی صفات کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں اور جب یہ جوہر کسی آدمی میں پیدا ہو جائیں تو اس کا مرتبہ چاند اور ثریا ستارے سے بھی بلند ہو جاتا ہے۔

حریم ترا خودی غیر کی! معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات

معانی: حریم: گھر۔ معاذ اللہ: خدا کی پناہ۔ لات و منات: دو بتوں کے نام جو کعبہ میں رکھے ہوئے تھے ۔ دوبارہ: پھر سے ۔ زندہ کرنا: تازہ کرنا۔ غیر: دوسرا۔ خودی: خود شناسی۔

مطلب: علامہ تیاتر میں اسٹیج پر اداکاری کرنے والے اداکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ خودی جس کا میں نے مذکورہ بالا اشعار میں ذکر کیا ہے تجھ میں موجود نہیں ہے۔ اداکاری چونکہ نقالی ہوتی ہے اور اے اداکار تو چونکہ دوسروں کی نقل اتارتا ہے اس طرح تو اپنے گھر میں اپنی خودی کے بجائے غیر کی خودی کو داخل کرتا ہے جس سے تجھے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ اس طرح تو کافروں کے زمانے میں کعبے میں رکھے ہوئے لات و منات کے کاروبار بت پرستی کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی، نہ سازِ حیات

معانی: تمثیل: اداکاری، ڈرامہ۔ کمال: عروج۔ سوز: جلن: ساز: لذت۔ خودی: اپنی معرفت، انسانیت۔

مطلب: ڈرامہ کھیلنے یا اداکاری کرنے کا کمال یہ ہے کہ اداکار اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے اور خود میں کسی دوسرے کو داخل کر کے اس کی جگہ اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اداکار اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تیری ہستی مٹ جائے اور تجھ میں نہ خودی کی تپش باقی رہے اور نہ زندگی کا نغمہ باقی رہے۔

(بشکریہ اقبال رہبر ڈاٹ کام)

ٹیگس