کربلا ہمیں کیا سکھاتی ہے؟ (۱)
مکتب حسینی، عشق محبت سے لبریز ایک ایسا سمندر ہے جس میں انسان جتنا زیادہ غوطہ ور ہو، اتنا ہی وہ عزت، شرف اور سربلندی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اس میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور جس قدر وہ بیدار ہوتا ہے اتنا ہی ظلم و استبداد اور عالمی سامراج کے ایوانوں میں لرزہ پیدا ہوتا ہے۔
سحر نیوز/مناسبت: تحریک کربلا کے آغاز سے لے کر معرکۂ کربلا سجنے اور پھر اُس کے بعد کاروان حسینی کے واپس مدینے آنے تک قدم قدم پر بشریت کے لئے بے شمار انسان ساز اسباق بکھرے ہوئے ہیں۔ محسنِ انسانیت، امامِ حریت حضرت امام حسین علیہ السلام کا ہر قول و فعل انسانیت کے تقاضوں سے ہماہنگ اسلام و قرآن کی آفاقی تعلیمات کا غماز ہے۔
ہم اس نوشتے میں مختصراً کربلا سے ملنے والے چند ایک اسباق پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں:
۱۔ اللہ پر بھروسہ (توکل)
یادگار کربلا حضرت (امام) محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: جو بھی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ پھر کبھی شکست نہیں کھاتا۔ پوری تحریک کربلا اس الٰہی تعلیم کا مرقع نظر آتی ہے جس کا قہری نتیجہ مکتب کربلا کی ابدیت کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اگرچہ اہل کوفہ کے مسلسل خطوط موصول ہونے کے بعد کربلا کا رخ کیا، مگر بنیادی طور پر آپ کا تکیہ اللہ پر تھا، یہی وجہ ہے کہ جس وقت درمیانِ راہ آپ کو کوفیوں کی بے وفائی کی خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں، آپ کے عزم و ارادے میں ذرہ برابر لغزش پیدا نہ ہوئی اور آپ اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہے اور اسکے بعد جب روز عاشور دشمن کی جانب سے ہمہ جہتی اور بے رحمانہ یلغار کا آغاز ہوا تو آپ نے ان الفاظ میں اللہ پر اپنے بھروسے کا اعلان فرمایا: ’’خداوندا، تو ہر غم و اندوہ میں میری پناہگاہ ہے، ہر سختی میں میری امید ہے اور ہر پیش آنے والے اتفاق میں میرا سہارا اور میرا پشتپناہ ہے‘‘۔
۲۔ تسلیم و رضا
مکتب کربلا کا ایک اور اہم اور بڑا سبق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا پر راضی اور خوشنود رہنا ہے۔ تحریک کربلا کے علمبردار امام حسین علیہ السلام کے پیش نظر صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اسکے نبی (ص) کی رضا اور خوشنودی تھی، اگر آپؑ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، اگر آپ نے اپنے جگر پاروں اور عزیزوں کو اپنی آنکھوں سے بے دردی کے ساتھ شہید ہوتا دیکھا، اگر آپ نے اہل حرم اور مخدرات کے سر سے چادر چھین لئے جانے اور پھر اُس کے بعد انکی اسیری پر صبر فرمایا تو اس کا مقصد صرف رضائے الیٰہی کا حصول تھا۔
جس وقت آپ مکہ سے عراق کی جانب نکلنا چاہتے تھے تو آپ نے فرمایا: ’’ہم اہل بیت ہر اُس چیز پر راضی ہیں جس پر اللہ راضی ہو، ہم اسکے امتحان اور بلا پر صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں اور خدا ہم کو صابرین کا اجر عطا فرمائے گا‘‘۔
اللہ کی رضا اگر انسان کا مطمع نظر بن جائے تو پھر وہ کسی اور کی خوشی یا ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے فرائض پر عمل کرتا ہے۔
۳۔ فرض کی ادائگی
کربلا نے فرض پر عمل کا سبق دیا ہے۔ اہل کوفہ کی بے وفائی اور وعدہ خلافیوں سے آگاہ ہونے کے باوجود سید الشہدا امام حسین علیہ السلام نے حق سے انکی ظاہری حمایت کے بعد خود کو اس بات کا پابند سمجھا کہ اگر کسی خطے کے لوگ طاغوت کے خلاف نصرت، ہدایت اور رہنمائی کے لئے طلب کر رہے ہیں تو چل کر اُن کے امور کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لی جائے۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رح) اس حوالے سے فرماتے ہیں:
حضرت ابو عبد اللہ (امام حسین) نے قلیل تعداد کے باوجود قیام اس لئے کیا کہ آپ نے خود کو نہی المنکر کرنے کا پابند سمجھا اور کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے…، حضرت سید الشہدا علیہ السلام نے اس راہ میں اپنی جان نچھاور کرنے اور حاکم شام اور یزید کے اثرات محو کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھی، ذمہ داری تھی کہ آپؑ قیام فرمائیں، اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں تاکہ قوم کی اصلاح ہو اور یزید کا جھنڈا زمیں بوس ہو‘‘۔
۴۔ حریت و آزادی
سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کو امامِ حریت کہا جاتا ہے اور عاشورا آپ کی حریت کا استعارہ ہے۔ جس وقت آپ سے یزید کے لئے بیعت طلب کی گئی تو آپ نے جواباً فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! مجھے ناپاک فرد کی ناپاک اولاد نے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے؛ موت و ذلت کے درمیان، مگر غیر ممکن ہے کہ ہم ذلت و حقارت کو تسلیم کریں، خدائے سبحان نے ہم، پیغمبر (ص) اور صاحبان ایمان پر ذلت کے سامنے تسلیم ہونے کو ممنوع قرار دیا ہے اور طہارت، شرف، عزت کے حامل دامن اور بلند و بالا عزم اور عزت نفس کا حامل خاندان ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ پست و حقیر افراد کی اطاعت کو باشرف اور عزتمندانہ موت پر ترجیح دیں۔
۵۔ خلوص
کربلا کی جاودانی اور ابدیت کا ایک راز اس میں موجزن خلوص اور نیک نیتی ہے۔ مدینے سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک کے سفر کے دوران بہت سے دعویدار سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ آئے مگر کوئی بھی اپنے دعوے میں ثابت قدم نہ رہ سکا اور پھر آپ کو یکہ و تنہا چھوڑ کر کنارے ہو لئے۔
روز عاشور بھی جب گھمسان کا رن پڑا تو تلواروں اور نیزوں کی کھنک کے درمیان جس عنصر نے اصحابِ حسینی کو تھامے رکھا وہ اُن کا خلوص، نیت کی پاکیزگی اور اپنے ہدف پر ایمان تھا، ورنہ اگر نیتوں میں کھوٹ ہوتی تو عاشور سے بہت پہلے ہی اصحاب حسینی کوئی اور راستہ انتخاب کر کے کسی گوشۂ عافیت میں بیٹھ گئے ہوتے۔
مگر ایسا نہ ہوا اور ہر حسینی نے اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے امام اور مقتدیٰ کی ہمراہی کی اور حتیٰ اس کو بھی ناکافی جانا۔ بعض اصحاب نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک بار تو کیا، اگر ستر بار بھی ہمیں حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہید کیا جائے، پھر زندہ کیا جائے اور پھر ہمیں نذر آتش کر کے اُس کی راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے تب بھی ہم آپؑ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔
جاری ہے…