Aug ۱۸, ۲۰۲۵ ۱۱:۵۸ Asia/Tehran
  • صاف پانی کی تلاش: مائیکرو پلاسٹک سے نجات کیسے ممکن ہے؟

پلاسٹک کے ننھے ذرات خوراک اور پانی کے ذریعے ہمارے جسموں کے گہرائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر پانی میں موجود ان ذرات کو نکالنے کا طریقہ بہت آسان ہے۔

سحر نیوز/صحت:  چین میں ہونے والی تحقیق میں منرلز سے بھرپور پانی اور سافٹ واٹر پر مختلف تجربات کیے گئے۔

اس تحقیق میں پانی کی دونوں اقسام کو ابالنے سے قبل پلاسٹک کے ننھے ذرات کو شامل کیا گیا اور ابالنے کے بعد پھر انہیں فلٹر کیا گیا۔

گوانگزو میڈیکل یونیورسٹی اور جینان یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ابالنے اور فلٹر کرنے سے پلاسٹک کے 90 فیصد ذرات ختم ہو جاتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ پانی ابالنے کے سادہ طریقہ کار سے گھر کے پانی سے پلاسٹک کے ذرات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منرلز سے بھرپور پانی کو ابالنے سے پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی آتی ہے۔

اس طرح کے پانی میں موجود کیلشیئم کاربونیٹ ابلنے کے بعد کامیابی سے پلاسٹک کے ذرات کو ٹریپ کرلیتا ہے۔

محققین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات سے نجات بہت آسان ہے بس پانی کو ابال لیں۔

یہاں تک کہ سافٹ واٹر جس میں کیلشیئم کاربونیٹ کم تحلیل ہوتا ہے، اس میں بھی پلاسٹک کے 25 فیصد ذرات کا خاتمہ اس طریقہ کار سے ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد چائے کی چھلنی سے اگر پانی کو فلٹر کیا جائے تو باقی ماندہ پلاسٹک کے ذرات سے بھی پانی کو پاک کیا جاسکتا ہے۔

مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق انسان پانی کے ذریعے روزانہ بہت بڑی تعداد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو جزو بدن بناتے ہیں۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پلاسٹک کے یہ ذرات ہمارے جسم کو کیا نقصان پہنچاتے ہیں مگر یہ واضح ہے کہ یہ صحت کے لیے کوئی اچھی چیز نہیں۔

مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ پلاسٹک سے معدے میں موجود بیکٹیریا کے افعال میں تبدیلیاں آتی ہیں جبکہ جسم میں اینٹی بائیوٹیک مزاحمت بڑھتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ پانی ابالنا طویل المعیاد بنیادوں پر پلاسٹک کے ننھے ذرات کو جسم میں جانے سے روکنے کے لیے آسان ذریعہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حیران کن طور پر بہت کم خطوں میں پانی کو ابال کر استعمال کیا جاتا ہے مگر توقع ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس طریقہ کار کو اپنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے انسانوں کو پلاسٹک کے ننھے ذرات سے بچانے کے ایک آسان طریقے کی افادیت ثابت ہوئی۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیٹرز میں شائع ہوئے۔

ٹیگس