مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ملکوں سے روس کے رابطے
روس کے وزیر خارجہ نے مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے ملکوں کے ساتھ روس کی مشاورت میں اضافے کی خبر دی ہے ۔
روسی خبررساں ایجنسی ایتارتاس کے مطابق وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے پیر کے دن کہا ہے کہ مشرق وسطی، شمالی افریقا اور اسی طرح امریکا کے لیڈران روس کے موقف کو اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں اوراب روس کے پیش کردہ دلائل کو سنجیدگی کے ساتھ سنتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ بدلتے ہوئے حالات میں امریکا اور علاقے کے ملکوں کے ماضی کے موقف کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ قابل ذکر ہے کہ روس اور علاقے کے بعض ملکوں کے لیڈروں کے درمیان مشاورت میں ایسی حالت میں اضافہ ہوا ہے کہ روس نے تیس ستمبر سے شام میں دہشت گردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر فضائی حملے شروع کئے ہیں ۔ روس یہ حملے حکومت شام کی مکمل ہم آہنگی سے انجام دے رہا ہے۔
دوسری طرف جرمنی کے ڈپٹی چانسلر نے روس کے بارے میں مغرب کی پالیسی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس کو شامل کئے بغیر شام کا بحران حل نہیں کیا جاسکتا۔ ڈویچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے ڈپٹی چانسلر اور وزیر اقتصاد و توانائی، سیگمار گیبریل نے کہا ہے کہ مغرب کو شام کے بارے میں روس کے موقف کی مخالفت کے بجائے اس کی پالیسیوں کو سمجھنے کے کوشش کرنی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ مغرب ایک طرف تو بحران شام کے حل میں ماسکو کا تعاون چاہتا ہے اور دوسری طرف سیاسی میدان میں اس کو الگ تھلگ کردینے کی کوشش کرتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مغرب کی یہ پالیسی بالکل غلط ہے جس کو ترک کرنا ہوگا۔
اسی کے ساتھ نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹنبرگ نے بھی مختلف قسم کے علاقائی اور عالمی بحرانوں کے حل میں روس کے تعاون کو ضروری قرار دیا ہے۔ انھوں نے پیر کو ناروے میں نیٹو کے رکن ملکوں کی پارلیمانی نشست سے خطاب میں کہا کہ روس کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی عالمی امن وآشتی اور نیٹوکے فائدے میں نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں روس کے ساتھ افہام و تفہیم کی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ روس ناروے کا سب سے بڑا پڑوسی اور سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے بنابریں علاقائی اور بین الاقوامی بحرانوں کے حل کی کوششوں میں اس کو شامل کرنا ضروی ہے۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں روس کو گوشہ بنانے کی پالیسی تعمیری نہیں ہے۔