Jan ۲۰, ۲۰۱۶ ۱۸:۱۲ Asia/Tehran
  • فرانس میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں شدت

فرانس کے وزیر داخلہ برنار کازینو نے اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں اضافے کا اعتراف کیا ہے۔

فرانس کے وزیر داخلہ برنار کازینو نے سن دو ہزار پندرہ کے دوران اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران ایسے چار سو واقعات پیش آئے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران چارلی ایبڈومیگزین کے دفتر پر حملے کے بعد پیش آئے۔

فرانس کی اینٹی اسلامو فوبیا فیڈریشن سی سی آئی ایف نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس عرصے کے دوران مسلمانوں کے خلاف جسمانی تشدد اور توہین کے واقعات میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایسے یورپی ممالک ہیں جہاں مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات پر حملوں کے واقعات زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔ برٹش مسلم کونسل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں مذہب مخالف گروہوں نے ، مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ناٹنگھیم میں مسلمانوں کے قبرستان پر حملہ ، حالیہ مہینوں کے دوران برطانیہ میں چلنے والی اسلامو فوبیا لہر کا محض ایک نمونہ ہے۔

برطانوی حکام کے تازہ ترین اسلام مخالف اقدامات میں وزیر تعلیم نیکی مورگن کے بیان کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں برطانوی تعلیمی اداروں میں نقاب اور برقع پہننے پر پاپندی کی حمایت کی ہے۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پیر کے روز ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ فرانس کی طرح اپنے ملک میں پردے کے بارے میں قانون سازی کروائیں تاہم ملک کے بعض اداروں اور تنظیموں کی جانب سے حجاب کے استعمال کو ممنوع کردیئے جانے کی حمایت کرتے ہیں۔

روزنامہ سنڈے ٹائمز کے مطابق برطانیہ کے غریب ترین آبادی والے علاقوں میں پناہ گزینوں کے گھروں پر لال نشان لگائے گئے ہیں جس کے سبب ان گھروں میں رہنے والے افراد آسانی کےساتھ پہچانے جاسکتے ہیں اور ان کے خلاف نسل پرستانہ اقدامات کی انجام دہی کے خدشات میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ فرانس اور برطانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ مخاصمت دوسرے یورپی ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بنیادی حقوق سے متعلق یورپی ایجنسی کی محترمہ اینڈروٹس نے اس بات کی تائید کی ہے کہ یورپ میں اسلاموفوبیا کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کیوں کہ یورپی یونین کے بہت کم ممالک میں اس قسم کے واقعات کو رجسٹرڈ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے اٹھائیس ملکوں میں سے صرف چھے ممالک میں اسلام دشمنی کی بنا پر پیش آنے والے واقعات کے اعداد و شمار جمع کئے جا رہے ہیں۔

ٹیگس