امریکی سینیٹ میں ایران مخالف پابندیوں کا بل منظور
امریکی سینیٹ نے ایران کے خلاف پابندیوں کے جامع منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔سینیٹ میں اٹھانوے ووٹوں سے منظور کیے جانے والے اس منصوبے کو ایران کے عدم استحکام پھیلانے والے اقدامات کے مقابلے کے قانون دوہزار سترہ کا نام دیا گیا ہے۔
اس منصوبے کو باضابطہ قانونی شکل دینے کے لیے اس کی امریکی ایوان نمائندگان سے منظوری اور صدر امریکہ کی توثیق ضروری ہے۔امریکی سینیٹ میں منظور کیا جانے والا ایران مخالف منصوبہ تین طرح کی پابندیوں پر مشتمل ہے جن میں، ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے پابندیاں، دہشت گردی کے حوالے سے پابندیاں اور اسلحہ کی فروخت پر پابندیاں شامل ہیں۔اس منصوبے کی منظوری سے قبل ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے کہا تھا کہ جامع ایٹمی معاہدے کی شق چھبیس اور انتیس کے تحت امریکہ پوری نیک نیتی کے ساتھ تعمیری ماحول میں اس معاہدے پر عملدرآمد اور ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنے کا پابند ہے جس کے نتیجے میں جامع ایٹمی معاہدہ متاثر ہوسکتا ہو ۔امریکی سینیٹ میں پاس ہونے والا ایران مخالف پابندیوں کا بل مختلف مسائل پر مشتمل ہے اور یہ جامع ایٹمی معاہدے کی روح کے منافی ہے۔ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان حسین نقوی حسینی نے واضح الفاط میں کہا ہے کہ امریکی سینیٹ میں پاس ہونے والا ایران مخالف بل جامع ایٹمی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔مصالحتی کونسل کے اسٹریٹیجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی سینیٹ کی جانب سے ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں وضع کرنا، جامع ایٹمی معاہدے کی روح کے منافی ہے۔انہوں نے کہا کہ جامع ایٹمی معاہدے پر علمدرآمد کی نگرانی کرنے والی ایرانی کمیٹی اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور امریکی پابندیوں کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا کہ امریکہ پابندیوں کے ذریعے، عراق اور شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ہاتھوں اپنی پے در پے ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔دوسری جانب امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی ایران مخالف پابندیوں کے بل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی پابندیوں سے ایران کے ساتھ ہونے والا جامع ایٹمی معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جامع ایٹمی معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔