امریکہ میں نسل پرستی مخالف احتجاج میں شدت
امریکہ میں نسل پرستی کی مخالفت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ریاست کنساس کے لوگوں نے نسل پرست گروہوں کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سینیٹروں نے بھی شارلٹس ول کے واقعے کے بارے میں صدر ٹرمپ کے نسل پرستانہ بیانات پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں امریکی شہریوں نے کنساس سٹی اور اس ریاست کے دوسرے شہروں میں نسل پرست گروہوں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔
مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر صدر ٹرمپ، نازی ازم اور فسطائیت کے خلاف نعرے درج تھے۔
ریاست کنساس میں نسل پرستی کے مخالفین اور نسل پرستی کے حامیوں کے درمیان کئی مقامات پر توتو میں میں بھی ہوئی تاہم تشدد اورہاتھاپائی کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
کنساس میں یہ مظاہرے، نسل پرستی کے خلاف امریکہ کے دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کے ایک دن کے بعد ہوئے ہیں۔
گزشتہ روز امریکہ کے شہر بوسٹن میں نسل پرستی کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا تھا جس میں کئی ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔ نسل پرستی کے خلاف ایسے ہی مظاہرے نیویارک، الاباما، وسکانسن، کیلی فورنیا، نیوجرسی، شمالی کیرولینا اور ایلی نوائے میں بھی ہوئے تھے۔
مظاہروں میں شریک لوگوں نے صدر ٹرمپ کے نسل پرستانہ نظریات اور اسی طرح ملک میں نسل پرست گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکی ٹیلی ویژن چینل سی بی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق شارلٹس ول کے واقعے کے بارے میں امریکی صدر کے بیانات پر ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ری پبلکن سینیٹر ٹم اسکاٹ نے کہا ہے کہ یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ شارلٹس ول کے واقعے کی ذمہ داری دونوں گروہوں پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے اندر اخلاقی وجاہت کا فقدان ہے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کین نے بھی اس بات پر کڑی نکتہ چینی کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے آخر شارلٹس ول میں پیدل چلنے والوں پر گاڑی چڑھانے کے واقعے کو دہشت گردی کیوں قرار نہیں دیا۔
انہوں نے اس قسم کے واضح تشدد کے خلاف صدر ٹرمپ کے مبہم اور مشکوک طرز عمل پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔
قابل ذکر ہے کہ نسل پرستی کے حامی ایک گروپ نے شارلٹس ول میں نسل پرستی کے مخالفین پر گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکی صدر نے اس واقعے کی کھل کر مذمت کرنے سے گریز اور دونوں گروہوں کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔