حکومت میانمار مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہے
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ یانگ لی نے کہا ہے کہ میانمار کے حکام صوبہ راخین میں مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ یانگ لی کا کہنا تھا کہ صوبہ راخین کے مسلمانوں کو انتہائی ابتر صورتحال کا سامنا ہے اور اس بار ہونے والی تباہی اکتوبر کے واقعات سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔انہوں نے حکومت میانمار کی مشیر اعلی اور وزیر خارجہ آن سانگ سوچی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اپنی خاموشی توڑ کر اس معاملے کے حل کے لیے قدم اٹھائیں۔پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ میانمار سے بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور گذشتہ دو ہفتوں میں سوا لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔انسانی حقوق کی سولہ تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں حکومت میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبہ راخین کے مظلوم مسلمانوں تک انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کا سلسلہ بند کردے۔جمعہ پچیس اگست سے اب تک صوبہ راخین کے مسلمانوں کے خلاف فوج اور انتہا پسند بودھ ملیشیا کے حملوں میں چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔اسی دوران اطلاعات ہیں کہ انڈونیشیا میں سیکڑوں افراد نے میانمار کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کرکے، روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مظاہرین نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ حکومت میانمار کی مشیر اعلی اور وزیر خارجہ آنگ سان سوچی پر مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم ستم پر آنگ سان سوچی کی خاموشی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ بھی اس قتل عام میں برابر کی شریک ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کے خلاف، میانمار کی فوج اور بودھ ملیشیاؤں کے ظلم و ستم پر، دنیا کے مختلف ملکوں کی جانب سے سخت احتجاج کیا جارہا ہے گزشتہ روز چیچنیا، یوکرین اور پاکستان کے مسلمانوں نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بے گناہوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔