جنگوں کے اخراجات کے بارے میں پنٹاگون کا جھوٹ
امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد دیگر ملکوں پر امریکا کے فوجی حملوں اور لشکر کشی کی وجہ سے امریکا کے ہر ٹیکس دہندہ کو سات ہزار پانچ سو ڈالر دینا پڑا ہے۔
ڈیفنس ون ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ امریکی وزارت جنگ نے تخمینہ لگایا ہے کہ صرف افغانستان، عراق اور شام کی جنگ میں ایک کھرب پانچ سو ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں لیکن یہ رقم امریکی ادارے ایوی لیگ کے اقتصادی ماہرین کے اندازوں سے بہت ہی کم ہے-
براؤن یونیورسٹی سے وابستہ ادارے واٹسن نے بھی ستمبر دو ہزار سولہ میں ایسی دستاویزات شائع کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکا نے دنیا کے مختلف ملکوں پر جو جنگیں مسلط کی ہیں ان میں اس کو اب تک تین ٹریلین ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑے ہیں اور ان جنگوں کے لئے حکومت نے جو قرضے لئے ہیں ان کا سود دو ہزار ترپن تک سات ٹریلین نو سو ارب ڈالر ہو جائے گا-
کولمبیا یونیورسٹی کے ماہراقتصادیات اور عالمی بینک کے سابق ڈائریکٹر جوزف اسٹی گلیٹز اور ہارورڈ یونیورسٹی کی لینڈا بلیمس نے دو ہزار چھے میں جو اسناد پیش کی تھیں ان میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر جارج بش کے اقتصادی مشیر لاری لینڈزی نے عراق پر لشکر کشی کے وقت عراق کی جنگ کے اخراجات کا تخمینہ دو سو ارب ڈالر لگایا تھا-
ان دستاویزارت سے پتہ چلتا ہے کہ جارج بش کے اقتصادی مشیر کو جنگ کے اخراجات کا اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی تھی کیونکہ اسٹی گلیٹز اور بلیمس جیسے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق پر امریکا کی لشکرکشی کے صرف تین سال بعد ہی عراق جنگ کے اخراجات سات سو پچاس ارب ڈالر سے لے کر ایک ٹریلین دو سو ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے- اب گیارہ سال بعد پنٹاگون اعلان کر رہا ہے کہ عراق، افغانستان اور شام کی جنگوں کے اخراجات مجموعی طور پر ایک ٹریلین پانچ سو ارب ڈالر ہے جو اقتصادی ماہرین کے نقطہ نگاہ میں ایک صریحی جھوٹ ہے-