اندر سے ٹوٹ رہا ہے اسرائیل، کیا صبح قریب ہے؟ - مقالہ
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں تہران کے دورے پر آنے والے شام کے وزیر اوقاف اور ان کے ساتھ آنے والے مذہبی وفد سے ملاقات میں کہا تھا کہ جلد ہی ہم اور آپ دیکھیں گے کہ آپ بیت المقدس میں نماز ادا کر رہے ہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی کا یہ بیان بہت ہی اہمیت کا حامل ہے خاص طور پر اس لئے کہ اسرائیل کے اندر بھی ایسی علامتیں صاف نظر آ رہی ہیں جو اسرائیل کی شکل میں غاصب صیہونی حکومت کی تباہی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ علاقے میں وہ مزاحمتی تحریکیں جو فلسطین پر صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف بر سر پیکار ہیں، بہت تیزی سے مضبوط ہو رہی ہیں اور ان کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے اندر سے جو رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں اور خود اسرائیلی اخباروں میں بھی شائع ہو رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکام اور عام صیہونیوں کو بھی خطرے کی گھنٹی سنائی دینے لگی ہے۔
صیہونی حکومت نے ایک داخلی نظام بنایا ہے جسے داخلی محاذ کہا جاتا ہے اس سے مراد اسرائیل کے اندر بسنے والا صیہونی معاشرہ اور مقبوضہ فلسطین میں تعمیر کی کئی اساسی تنصیبات ہیں۔ اس محاذ میں سارے بجلی گھر، سرکاری عمارتیں، ادارے، سڑکیں اور پبلک مقامات شامل ہیں۔
1992 میں جب خلیج فارس کی جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں صدام کی حکومت نے تل ابیب پر چار میزائل فائر کئے تب اسرائیل میں اس محاذ کا قیام ہوا۔ اس لئے کہ صیہونیوں نے اس سال فوج کا داخلی ڈھانچہ تیار کیا اور اس کے ذریعے داخلی محاذ کے انتظام کی ذمہ داری مشخص کی۔ فوج کی اس داخلی کمان کا سربراہ، شہری سیکورٹی شعبے سے تعاون کرتا ہے۔ شہری سیکورٹی شعبے میں فائر بریگیڈ اور سیکورٹی خدمات فراہم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کمان کے تحت پانچ بریگیڈ کام کرتی ہیں، شمالی بریگیڈ، ڈان بریگیڈ، قدس بریگیڈ، سینٹرل بریگیڈ اور جنوبی بریگیڈ۔ ہر بریگیڈ میں ریسکیو اور امدادی یونٹ شامل ہیں۔ اس وقت جنرل ایال آیزنبرگ داخلی مخاذ کی کمان کے سربراہ ہیں۔ 2011 سے اس عہدے پر فائز ایال آیزنبرگ داخلی محاذ کی کمان سے آٹھویں سربراہ ہیں۔
اسرائیل کے وزیر تعلیم نفتالی بینیٹ نے حال ہی میں قومی سیکورٹی اسٹڈیز سینٹر میں منعقد سیکورٹی کانفرنس میں کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو اسرائیل کے داخلی محاذ کو اتنا شدید نقصان پہنچے گا کہ اسرائیل نے 1948 سے جس کا کبھی تجربہ نہیں کیا۔ اسرائیل کے دشمنوں کے پاس اتنی طاقت آ گئی ہے کہ وہ ہزاروں میزائلوں کی بارش کر سکتے ہیں۔ اسی لئے بات کی ضرورت ہے کہ داخلی محاذ کی کیفیت میں اضافے کی ٹکنالوجی میں پیشرفت کی جائے۔
اسرائیل کو جغرافیائی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا زیادہ تر علاقہ شمال سے جنوب کی جانب پھیلا ہوا ہے اور اس میں اسٹراٹیجک گہرائی نہیں ہے۔ اسرائیل جو فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرکے بنایا گیا ہے اس کا زیادہ تر عرض 17 اور کمترین عرض 7 کیلومیٹر ہے۔ یہ اسٹراٹیجک نظر سے بہت بڑی کمی تصور کی جاتی ہے۔ اس کے شمال میں لبنان کا طاقتور محاذ ہے اور مرکزی علاقے کے سامنے فلسطینی مزاحتمی محاذ ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو اسرائیل کا کوئی بھی حصہ مزاحمتی تحریکوں کے میزائل رینج سے باہر نہیں ہے۔ اسرائیلی حکام بھی یہی مانتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کے میزائیل ہی اسرائیل کے ہر چپے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ جیسے ہی جنگ شروع ہوئی، اسرائیل کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں رہے گا۔ معاریو اخبار کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت کی ڈیڑھ سو سے زائد اسی تنصیبات جنگ میں اچانک تباہ ہو سکتی ہیں۔ ان میں دس فیصد کو محفوظ تصور کیا سکتا ہے لیکن 90 فیصد حصہ غیر محفوظ ہے۔
اسرائیلی حکام کہہ رہے ہیں کہ داخلی محاذ کسی بھی جنگ کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جبکہ جیو پولیٹکل مسائل بھی بہت پیچیدہ ہیں اسی لئے جیسے ہی جنگ شروع ہوگی اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد آنن فانن میں وہاں سے فرار کرنے کی کوشش کرے گی لیکن بڑی تعداد میں لوگ ائیرپورٹس، ریلوے اسٹیشنز اور بندرگاہوں کے تباہ ہو جانے کی وجہ سے باہر نہیں نکل پائیں گے اور اسلامی مزاحمتی طاقتوں کے میزائلوں کے نیچے دفن ہو جائیں گے۔
ان حالات کے مد نظر ایک سوال یہ ہے کہ اگر جنگ نہیں ہوتی تو پھر اسرائیل کا کیا ہوگا؟ مقبوضہ فلسطین میں آکر بسنے والے یہودی اپنی ٹھاٹ باٹ بھری زندگی سے پیار کرتے ہیں۔ اس وقت جو خوف کا ماحول ہے اس میں اسرائیلوں کے لئے زیادہ وقت تک اس علاقے میں رک پانا بہت سخت ہے اور وہ وہیں واپس جانے کی کوشش کریں گے جہاں سے مہاجرت کرکے فلسطین آئے تھے۔
اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا صبح قریب ہے؟ کیا بیت المقدس میں نماز جماعت کا وقت قریب ہے؟