امن کے گھر میں دونوں کوریاؤں کی سربراہی ملاقات
مدتوں کے انتظار کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں کے درمیان تاریخی ملاقات پان من جوم نامی قصبے میں شروع ہوئی جسے امن کا گھر کہا جاتا ہے۔
شمالی کوریا کے رہنما اپنی بہن کم یونگ نام سمیت نو رکنی اعلی سطحی وفد کے ہمراہ جنوبی کوریا پہنچے۔ کم جونگ ان جب سرحد عبور کر کے جنوبی کوریا کے سرحدی قصبے پان من جوم میں داخل ہوئے تو صدر مون جائے ان نے ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔
سربراہی ملاقات کے آغاز میں دونوں رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے درمیان ملاقات کے سودمند اور تعمیری نتائج برآمد ہوں گے۔
کم جونگ اون نے مذاکرات کے آغاز سے قبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں تازہ ترین علاقائی اور عالمی مسائل نیز جزیرہ نمائے کوریا کے ایٹمی معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان نے اس موقع پر امید ظاہر کی کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے ساتھ ملاقات، جزیرہ نمائے کوریا میں امن و استحکام کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجکر پندرہ منٹ پر شروع ہوئی جو سو منٹ تک جاری رہی۔
جنوبی کوریا کے صدر کے ترجمان یون یونگ جان نے بعد ازاں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت انتہائی سنجیدہ اور دوستانہ ماحول میں ہوئی جس میں جزیرہ نمائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے، امن کو پائیدار بنانے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے ورکنگ گروپ کی سطح پر مذاکرات کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔
ستر سال سے جاری اختلافات کے سائے میں دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں کی یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب گذشتہ برس کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں بےپناہ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں اور علاقے میں امریکہ کی پے در پے مشترکہ فوجی مشقوں اور دوسری طرف شمالی کوریا کی جانب سے جاپان سمیت امریکی اتحادیوں کی سرحدوں کے قریب کیے جانے والے ایٹمی اور میزائل تجربات نے خطے میں بھرپور جنگ کے خدشات پیدا کر دیئے تھے۔
دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں نے اپنی جمعے کی ملاقات میں جس امید کا اظہار کیا ہے اس سے دیرینہ تنازعے کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے عزم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں کوریاؤں کے درمیان دوستی کے فروغ کا یہ عزم امریکہ جیسے ملکوں کو اچھا نہ لگے جو جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کو علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کے جواز کو مستحکم کرنے کا بہانہ سجھتے ہیں۔