والدین سے مہاجر بچوں کو الگ کرنے کے فیصلے سے ٹرمپ کی پسپائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرحدوں پر تارکینِ وطن کے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر کے انہیں پنجرہ نما کمروں میں محصور کرنے کا متنازعہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکینِ وطن کے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر کے انہیں پنجرہ نما کمروں میں محصور کرنے کا متنازعہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان ان تصاویر اور ویڈیوز کے سامنے آنےاور عالمی سطح پر ہونے والی مذمتوں اور احتجاج کے بعد کیا ہے جن میں دکھایا گیا ہے کہ دو سے تین سال تک کے بچوں کو بھی ان کے والدین سے الگ رکھا گیا ہے اور اس ضمن میں درجنوں روتے اور پریشاں حال بچوں کی تصاویر نے ہر انسان کو مضطرب کر دیا ہےامریکی صدر ٹرمپ نے ہوم لینڈ سیکورٹی کے سیکریٹری کرسجن نیلسن سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس کا اعلان کیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے صرف ایک روز قبل اسی پہلو کے متعلق انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کانگریس کے فیصلے سے مشروط کیا تھا۔صدر ٹرمپ نے اس ضمن میں اپنی پالیسی برقرار رکھنے کا بھی اشارہ دیا تاہم اب تارکینِ وطن کے بچے ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ رہ سکیں گے۔ٹرمپ نے کہا کہ اب صرف بچوں کے بجائے غیر قانونی تارکین وطن کے گھرانوں کے تمام افراد کو حراست میں رکھا جائے گا۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے تحت سرحد پار کرنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن میں بالغ افراد کو یو ایس مارشل سروسز کے تحت حراست میں لیا گیا جبکہ بچوں کو شعبہ صحت و انسانی سروسز کے تحت علیحدہ رکھا جا رہا تھا۔ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں روتے ہوئے بچوں کی ویڈیو اور تصاویر نے امریکا کو اس متنازع فیصلے پر نظرِ ثانی پر مجبور کردیا تھا۔ اس لئے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے پر ملک کے اندر و باہر شدید احتجاج کیا جا رہا تھا۔کہا جا رہا ہے کہ نئے امیگریشن قانون کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج کے بعد امریکی حکومت اور کانگریس اب امیگریشن کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ میکسیکو سے ملنے والی سرحد پر امریکی سیکورٹی اہلکاروں نے پانچ مئی سے نو جون کے دوران دو ہزار، تین سو، بیالیس بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر کے حراست میں لیتے ہوئے انھیں خاردار تاروں سے پنجرہ نما بنے کیمپوں میں بند کر دیا تھا جہاں یہ بچے سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔