الٹی ہوگئیں سب تدبیریں .... + مقالہ
عرب دنیا کے مشہور تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے شام، روس اور اسرائیل کے حوالے سے بہت ہی دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
17 ستمبر کو روس کے ایل-20 طیارے کو شام میں سرنگوں کئے جانے کے ایک ہفتے کے اندر نتن یاہو نے دو بار روسی صدر ولادیمیر پوتین کو فون کرکے، اپنے وزیر دفاع لیبرمین کے ساتھ دورہ ماسکو پر اصرار کیا تاکہ نیویارک جانے سے پہلے یہ مسئلہ حل ہو جائے لیکن دونوں بار ہی ماسکو کا دروازہ بن ہی ملا۔ اسرائیل، اپنے دوست- دشمن ہر ایک کے ساتھ کھیل کھیلنے کا عادی ہو گیا ہے لیکن اس بار چال الٹی پڑ گئی۔
کچھ افراد کا خیال ہے کہ روسی طیارے کی تباہی کو پوتین نے اسرائیل سے دامن چھڑانے کا موقع سمجھا ہے۔ ولادیمیر پوتین نے نتن یاہو اور لیبرمین سے ملنے سے انکار کر دیا، یہی نہیں روس کے ائیر مارشل نے تو ماسکو پہنچے اپنے اسرائیلی ہم منصب کی پوری وضاحت بھی سننا پسند نہیں کی جو متعدد طریقوں سے نقشے وغیرہ لے کر یہ ثابت کرنے ماسکو گئے تھے کہ روسی طیارے کو اسرائیل نے نہیں شام نے سرنگوں کیا ہے۔ روسی کمانڈر نے وہ نقشے نہیں دیکھے اور اسرائیلی کمانڈر کی آدھی بات چھوڑ کر ہاتھ ملائے بغیر اور غصے میں مذاکرات کے کمرے سے باہر چلے گئے اور اسرائیلی مہمان ہونق کی طرح اپنی کرسی پر بیٹھے رہے۔
ہمیں اگر یہ پتہ چلے کہ صدر پوتین نے طیارے کی سرنگونی کے واقعے کو، اسرائیل سے دامن چھڑانے کا مناسب موقع سمجھا ہے تو تعجب نہیں ہوگا کیونکہ امریکا کے ساتھ مل کر جس طرح سے اسرائیل، روس کی پشت پر خنجر سے وار کر رہا اس کا ماسکو میں سب کر پتا ہے۔
شام کے وزیر خارجہ نے کہا کہ جب ہمیں ایس-300 میزائل مل جائے گا تو اس کے بعد اسرائیل، شام پر بمباری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، اسرائیل کی پوکھلاہٹ کی اصل وجہ یہی ہے۔
ولادیمیر پوتین، شام کو ایس- 300 میزائل سسٹم کے علاوہ شامی فضائی حدود سے نزدیک ہونے والے کسی بھی طیارے کے سسٹم کو خراب کرنے نیز پیشرفتہ سیکورٹی نظام دے رہے ہیں اور اس طرح سے وہ شام کو نو فلائی زون بنا رہے ہیں جس سے اسرائیلی یا امریکی طیاروں کے لئے شام کے ہر علاقے پر آزادی سے پرواز کرنا ممکن نہیں ہوگا اور یہ شام ہی نہیں پورے مشرق وسطی کے لئے بہت اہم واقعہ ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی رپورٹیں بھی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ شام میں روسی فضائیہ کی حمیمیم چھاونی پر ڈرون حملے کے پیچھے اسرائیل اور امریکا کا مشترکہ تعاون کار فرما رہا ہے۔ یہ چھاونی اسی لاذقیہ علاقے میں واقع ہے جہاں پر ایرانی میزائل کارخانے کا بہانہ بنا کر اسرائیلی جنگي طیاروں نے بمباری کی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اسرائیل کو ایل-20 روسی طیارے کے بارے میں مکمل اطلاع تھی جسے اسرائیلی جنگی طیاروں نے دھوکے سے شامی میزائل کے سامنے لا کر تباہ کرا دیا۔
گزشتہ 18 مہینے کے دوران اسرائیل نے شام پر 200 سے زائد حملے کئے ہیں لیکن اسے شام میں ایران کی فوجی موجودگی ختم کرنے میں کامیابی نہیں ملی، تو کیا ناراض روس کے سامنے ایک بار پھر وہ شام پر ایک اور حملہ کرنے کی ہمت کرے گا، وہ بھی ایس- 300 کے ہوتے ہوئے؟ نتنیاہو قسمت آزما سکتے ہیں، تماشہ ہم بھی دیکھیں گے!
بشکریہ
عبد الباری عطوان
رای الیوم