Jan ۱۴, ۲۰۲۰ ۱۴:۲۷ Asia/Tehran
  • جنرل سلیمانی کو 20 سال پہلے ہی قتل کیا جانا چاہیے تھا، ٹرمپ کی ہرزہ سرائی

ذہنی عدم توازن کے شکار صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد ایئر پورٹ پر امریکی فوج کے دہشت گردانہ حملے کی ایک اور توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں بیس سال پہلے ہی جنرل قاسم سلیمانی کا کام تمام کردینا چاہیے تھا۔

فاکس نیوز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تازہ ہرزہ سرائی کے دوران، سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو برا آدمی قرار دیا کیونکہ انہوں نے بہت سے امریکیوں اور دوسرے افراد کو قتل کیا  اور امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی کو بیس سال پہلے ہی قتل کردیا جانا چاہیے تھا۔
ٹرمپ نے اس سے پہلے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے چار امریکی سفارت خانوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا تھا۔ تاہم امریکی وزیر جنگ مارک ایسپر نے ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹیلی جینس رپورٹوں سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔
این بی سی ٹیلی ویژن نے بھی منگل کے روز حکومت امریکہ کے پانچ موجودہ اور سابق عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسی انٹیلی جینس اطلاعات موجود ہیں، کہ ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا حکم سات ماہ پہلے دیا تھا۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ رویہ روس اور چین کے حوالے سے بھی اپنا رکھا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کا قتل در اصل ان چیلنجوں سے نمٹنے کی وسیع اسٹریٹیجی کا حصہ ہے جو امریکہ کے دشمنوں نے ہمارے سامنے کھڑی کر رکھی ہیں اور یہ بات چین اور روس کے حوالے سے بھی درست ہے۔
 
ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ ڈیموکریٹ سیاسی اہداف کے حصول کی خاطر جنرل سلیمانی کی حمایت کر رہے ہیں، جو امریکہ کے لیے رسوائی کا باعث ہے۔
ٹرمپ کا اشارہ ایوان نمائندگان کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف کے اس موقف کی جانب تھا جس میں انہوں نے وائٹ ہاؤس پر جنرل سلیمانی کے قتل کی توجیہ کے لیے جھوٹی معلومات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ایڈیم شیف نے تیرہ جنوری کوامریکی صدر کے حالیہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کا بیان جھوٹ کا پلندہ ہے، ٹرمپ اور ان کے ساتھی جو کہہ رہے ہیں اس میں بے انتہا مبالغہ آرائی اور جنرل سلیمانی کے قتل پر حد سے زیادہ تاکید کی جا رہی ہے تاکہ اپنے اقدام کی توجیہ کی جاسکے اور یہ بات ہمیں ایران کے ساتھ جنگ کی طرف لے جائے گی جو انتہائی خطرناک ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے اور مغربی ایشیا میں امریکی اہداف کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ بننے والے دو اہم ترین ایرانی اور عراقی کمانڈروں جنرل قاسم سلیمانی اور جنرل ابو مہدی المہندس کی ایک ساتھ بغداد میں موجودگی، ٹرمپ کی انٹیلی جینس ٹیم کے لیے بہترین موقع تھا اور اسے وہ ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتی تھی، لہذا امریکیوں نے داعش کے خلاف جنگ کرنے والے دو عظیم جرنیلوں پر بزدلانہ حملہ کرکے تاریخ کے انتہائی گھناؤنے اور بڑے جرم کا ارتکاب کیا۔البتہ عراق میں قائم اپنے سب سے بڑے فوجی اڈے پر ایران کے جوابی حملے نے ٹرمپ انتظامیہ کے چھکے چھڑا دیے ہیں اور انہیں ایران کی فوجی طاقت کا اگر پہلے اندازہ نہیں تھا تو اب ضرور ہوگیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام اب خطے میں ایران اور اس کے دیگر اتحادیوں کے مزید انتقامی حملوں کے خوف سے اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔

ٹیگس