امریکی شہر سیاٹل کا کنٹرول مظاہرین نے سنبھال لیا
سی این این کے مطابق امریکہ بھر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سیاٹل میں مظاہرہ کرنے والے ہزاروں افراد نے شہر کے اہم راستوں کو بند کرکے علاقے کو خود مختار زون میں تبدیل کر دیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ اب کیپٹل ہل آٹونومس زون بن گیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان چند روز سے جاری جھڑپوں کے بعد اب سیاٹل کے پولیس اسٹیشین خالی پڑے ہیں اور وہاں کوئی اہلکار موجود نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین پر حملہ کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد اور بلوائی قرار دیا ہے ۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھاہے کہ سیاٹل پر داخلی دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا ہے جنہیں انتہا پسند ڈیموکریٹ سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں واشنگٹن کے گورنر جے انسلی اور سیاٹل کی میئر جنی ڈرکن پر تنقید اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وہ شہر کو فورا کنٹرول میں لیں اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ٹرمپ خود یہ کام کریں گے۔
دوسری جانب سیاٹل کی میئر جینی ڈرکن نے کہا ہے کہ ٹرمپ غلط راستے پر گامزن ہیں اور وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ عوامی کی آواز سننا کمزوری نہیں ہے۔ ڈرکن کا کہنا تھا کہ واضح سی بات ہے کہ امریکی صدر کو ہمارے شہر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا علم ہی نہیں۔ سیاٹل کی میئر نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہم انصاف چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں حقیقی اور معنی خیز تبدیلی کی کوشش کرنا چاہیے۔
جینی ڈرکن نے مظاہرین کی سرکوبی کے لیے فوج بھیجنے سے متعلق ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے پہلے بھی کھل کر کہہ چکی ہوں کہ فوج کو سیاٹل بھیجنا غیر قانونی اور ملکی آئین کے منافی ہوگا اور ہم اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
دوسری جانب امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ ایک فوجی کی حثیت سے وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہو کر وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین کی سرکوبی کا نظارہ نہیں کرسکتے۔ اپنے ویڈیو خطاب میں نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ یکم جون کو واشنگٹن میں سینٹ جونز کلیسا کی جانب ٹرمپ کے ساتھ چہل قدمی کرنا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔
امریکی چیف آف اسٹاف نے مزید کہا کہ ان کے اس اقدام سے یہ غلط تاثر لیا جا رہا ہے کہ فوج اندرونی جھگڑوں میں الجھ گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یکم جون کو پولیس وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین کو سرکوب کر رہی تھی، انہی حالات میں ٹرمپ اور مارک ملی، وزیر دفاع مارک ایسپر اور دوسرے فوجی افسران کے ساتھ وائٹ ہاؤس سے باہر آئے تھے اور لافائٹ پارک سے ہوتے ہوئے سینٹ جونز کلیسا میں داخل ہوئے تھے جہاں ٹرمپ نے انجیل کا نسخہ ہاتھ میں لیکر فوٹو سیشن کروایا تھا۔
امریکہ میں پچیس مئی کو ریاست منے سوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کے بہیمانہ قتل کے بعد سے ملک گیر مظاہرے جاری ہیں اور امریکی عوامی ملک میں ریاستی سطح پر رائج نسل پرستی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔