Oct ۱۸, ۲۰۲۰ ۱۶:۳۴ Asia/Tehran
  • اب پارٹی والے بھی ٹرمپ کا ساتھ چھوڑنے لگے

امریکی صدر کے تئیں بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کے بعد اب خود حکمراں ری پبلکن پارٹی کے ارکان نے بھی ان سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔

ری پبلکن سینٹر بن ساس نے کورونا وائرس کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی کارکردگی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے ان پر دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں اور سفیدفاموں کی برتری کے حامیوں کے ساتھ عشق لڑانے اور لاکھوں ووٹوں کو ضائع کرنے کا الزام لگایا ہے۔
امریکی صدر کے قریبی سمجھے جانے والے ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی حال ہی میں اعتراف کیا تھا کہ آئندہ صدراتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن کی کامیابی کے زیادہ امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔
روزنامہ نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کانگریس کے ری پبلیکن ارکان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں صدر ٹرمپ ہار جائیں گے اور اب وہ اپنی شہرت اور سیاسی ساکھ کو آئندہ کے سیاسی معرکوں کے لیے بچا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 اس رپورٹ میں آیا ہے کہ پچھلے چار سال کے دوران کانگریس کے ری پبلیکن ارکان صدر ٹرمپ کے نہ ختم ہونے والے توہین آمیز اور آداب کے منافی رویّے کا تماشا دیکھتے آئے ہیں اور ان کے ریکیک اور تکلیف دہ ٹوئٹس کو نظر انداز کرتے رہے، لیکن اب انہوں نے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 وائٹ ہاوس کے سابق چیف آف اسٹاف جان کلے نے بھی جنہیں صدر ٹرمپ کا قریب ترین فرد سمجھا جاتا ہے، اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ دھوکے بازی  ٹرمپ کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے اور تاجرانہ ذہنیت ان پر ہر چیز سے زیادہ ہاوی ہے، میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا کمزور اور ناتوان شخص اب تک نہیں دیکھا۔
امریکی صدر پر تنقیدوں میں ایسے وقت میں اضافہ ہوا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ ریاست جارجیا میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تمسخر آمیز لہجے میں کہہ چکے ہیں کہ میرے لیے امریکی تاریخ کے بدترین صدارتی امیدوار کا مقابلہ کرنا واقعی سخت ہے، اگر میں ہار گیا تو یہی کہوں گا کہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کے بدترین امیدوار سے ہارا ہوں۔
متضاد پالیسیوں، اخلاقی گراوٹ، غیر متوقع رویوں، بدانتظامی نے امریکیوں کے درمیان ٹرمپ کی ساکھ کو برباد کر دیا ہے۔
 سیاسی مبصرین کے مطابق کورونا وائرس کے مقابلے میں ان کی کمزور کارکردگی اور اس  کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سانحات کے ساتھ ساتھ، ملک میں نسل پرستی کے خلاف جاری مظاہروں کے بارے میں ان کا متنازعہ موقف آئندہ انتخابات میں ان کی ناکامی کے اسباب فراہم کرسکتا ہے.

ٹیگس