امریکا میں سیاسی بحران بدستور جاری
امریکہ کے منتحب صدر جوبائیڈن نے انتقال اقتدار کے حوالے سے وفاقی اداروں کے رویئے اور قانون شکنی پر شدید برھمی کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسوں کے مطابق امریکہ کے منتخب صدر جو بائیڈن نے انتقال اقتدار کے عمل میں ہونے والی تاخیر پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک کے مالی اور انٹیلی جینس ذرائع تک ان کی ٹیم کو فوری رسائی فراہم نہ کی گئی تو کورونا وائرس کی روک تھام کا منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہوجائے گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ پبلک سروس ڈیپارٹمنٹ انتقال اقتدار کے عمل اور کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ قانون کے مطابق امریکہ کے پبلک سروس ڈیپارٹمنٹ اور اس کی ڈائریکٹر جنرل، ایملی مرفی کو انتخابات میں جوبائیڈن کی کامیابی کا تصدیق نامہ جاری کرنا ہے تاکہ انتقال اقتدار کا عمل شروع کرنے کے ساتھ ساتھ مالی ذرائع کا اختیار بھی منتخب صدر کے حوالے کیا جا سکے، تاہم ایملی مرفی، صدر ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج کی کھلی مخالفت، شکست قبول نہ کرنے اور انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کو بنیاد بنا کر، منتخب امریکی صدر اور ان کی ٹیم کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہیں۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے دعوے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد ملک میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ ان کے ڈیموکریٹ رقیب جو بائیڈن تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے کامیاب ہوئے ہیں۔
جوبائیڈن نے امریکہ کے حالیہ انتخابات میں تین سو چھے الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں تاہم دو سو بتیس ووٹ حاصل کرنے والے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاحال اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔
درایں اثنا ہل نیوز نے مارننگ کنسلٹ اور پولیٹیکو جریدے کی جانب سے کرائے جانے والے رائے عامہ کے تازہ جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چھیالیس فی صد امریکیوں نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ وہ جو بائیڈن کے مقابلے میں اپنی شکست فوری طور پر تسلیم کر لیں۔ اس کے مقابلے میں بتیس فی صد امریکی شہریوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو انتخابات میں دھاندلی کے دعوے ثابت نہ ہونے کی صورت میں ہی اپنی شکست تسلیم کرنا چاہیے۔