فرانسیسی صدر کی ڈائلوگ بازی ۔ کارٹون
فرانس کے صدر کو گمان ہو چلا ہے کہ ایران کو سخت ایٹمی مذاکرات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آئندہ جوہری مذاکرات میں سعودی عرب کی شمولیت بھی ضروری ہے!
عمانوئل میکرون سعودی چینل کو انٹرویو دیتے وقت شاید یہ بات بھول گئے کہ جامع ایٹمی معاہدہ مکمل ہو چکا ہے اور ایران شفاف لفظوں میں یہ کہہ چکا ہے کہ اب جوہری موضوعات پر کسی قسم کے دوبارہ نہ تو مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی طے شدہ معاہدے میں کوئی ترمیم کی جائے گی۔
گزشتہ روز کے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی بھی واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ یا یورپ اس پوزیشن میں نہیں کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے کسی قسم کی شرطوں کا تعین کریں اور کسی مطالبہ کا حق اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ ایران ہے کہ جو معاہدے کا مکمل طور پر پابند رہا ہے جبکہ اسکے برخلاف امریکہ نے بھی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر کے قانون اور معاہدے کی خلاف ورزی کی اور یورپی فریقوں نے بھی امریکہ کی ایما پر معاہدے میں رہنے کے باوجود عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا اور اپنے کئے وعدوں پر عمل کرنے سے گریزاں رہے۔
بہتر ہوگا امریکی و یورپی حکام ڈائلوگ بازی کرنے کے بجائے اپنے کئے ہوئے وعدوں کی جانب پلٹیں اور ایران کے خلاف عائد پابندیوں کا مکمل طور پر ازالہ کریں، ورنہ ایران جو اپنی ترقی و پیشرفت کی راہ پر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود گزشتہ چالیس برسوں میں گامزن رہا، آئندہ بھی وہ اسی راہ کو جاری رکھے گا اور معاہدے کے فریقوں کو سوائے تاریخی ذلت و رسوائی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اسکے علاوہ یہ کہ ایران، پارلیمنٹ کے منظور کردہ اسٹریٹیجک قانون کی روشنی میں یہ واضح کر چکا ہے کہ اگر یورپ اور امریکہ کی وعدہ خلافیوں کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو وہ آئندہ کسی قسم کی رعایت اور تکلف سے کام لئے بغیر، ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح کو مزید کم کرنے کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل پروٹوکول کے تحت اپنے کئے وعدوں سے بھی پیچھے ہٹ جائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے انسپیکٹروں اور معائنہ کاروں کو اپنا بستر بوریا سمیٹ کر اپنے وطن لوٹ جانا ہوگا۔