اوسلو اجلاس طالبان حکومت کو تسلیم کئے جانے کی طرف ایک قدم تھا: روس
اوسلو اجلاس عالمی برادری کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کئے جانے کی جانب ایک قدم تھا، یہ بات روس کے ایک اعلیٰ اعہدے دار نے کہی ہے۔
روسی وزارت خارجہ میں انفارمیشن اینڈ نیوز سیل کے نائب سربراہ الیکسی زایِتسِف نے اوسلو میں ہوئے حالیہ بین الاقوامی اجلاس کو طالبان حکومت کو تسلیم کئے جانے کی طرف ایک قدم قرار دیا۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں گزشتہ پیر اور منگل کے روز امریکہ، ناروے، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں اور طالبان وفد کے مذاکرات ہوئے جنہیں افغانستان میں انسانی بحران کو مہار کرنے کی کوشش کا عنوان دیا گیا تھا۔
روسی وزارت خارجہ کے مذکورہ عہدے دار نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں ہفتے اوسلو میں طالبان اور بعض ممالک کے مذاکرات انجام پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان مذاکرات کو عالمی برادری کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کئے جانے کی جانب ایک قدم اور طالبان حکام کے ساتھ ساتھ افغانستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کے اعتماد میں اضافے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
انہوں نے بین الافغان مذاکرات کی حمایت کے سلسلے میں روسی موقف کے بارے میں پوچھے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم جیسا کہ پہلے بھی اعلان کر چکے ہیں کہ ہم افغانستان میں قیام امن و صلح کے مقصد سے مذاکرات میں دلچسپی رکھنے والے افغان فریقوں کی میزبانی کے لئے آمادہ ہیں۔
خیال رہے کہ روس اور طالبان کے مابین دفتری تعلقات بحال ہیں اور کابل میں روسی سفارتخانہ ماسکو اور طالبان حکومتوں کے مابین کوآرڈینیٹر کا کام انجام دے رہا ہے۔