خانہ کعبہ کے نیچے سے زمین کب پھیلائی گئی
"دحوالارض" سے مراد زمین کی خشکی کا پانی کے اندر سے باہر آنا ہے۔ اس طرح سے دحوالارض وہ دن ہے کہ جس دن زمین خانہ کعبہ کے نیچے سے پھیلائی گئی اور خدا کی رحمت تمام مخلوقات کے شامل حال ہوئی۔
پچیس ذی القعدہ کی تاریخ کو دحوالارض کا نام دیا گیا ہے۔ دَحوالارض ایک قرآںی اور حدیثی اصطلاح ہے۔ "دحو" کا مصدر پھیلانے، گسترش دینے اور کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دینے کے معنی میں آتا ہے۔ اس طرح "دحوالارض" کے معنی زمین کے پھیلانے اور اسے گسترش دینے کے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے ہزاروں سال قبل کہ جب زمان و مکان کچھ نہ تھا ، نور اور تاریکی کا وجود نہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین ، نہ دن تھا نہ رات ، نہ بہشت نہ جہنم، خداوندعالم نے ایک نور کو اپنے نور سے خلق کیا اور اس نور سے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا، وہ نور زمین و آسمان سے افضل و برتر تھا، جس وقت تمام آسمان اور زمین تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، آسمانوں کے فرشتے اس نور کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے تاکہ اپنے پروردگار سے قربت حاصل کریں۔ یہ وہی عظیم نور الہی تھا کہ جس سے آسمان و زمین کو حیات ملی۔ اس طرح زمین روشن ہو گئی اور آسمانی مخلوقات کی عبادت اور تسبیح جاری رکھنے کے لیے عرش پر ’’ بیت معمور‘‘ بنایا گیا اور یہ بیت معمور آسمان والوں کی پناہ گاہ بن گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی عبادت اور ان کے قلب کو سکون عطا کرنے کے لیے " کعبہ معظمہ " کو زمین کے مرکز میں قرار دیا-
عید دحوالارض ہے عید زمیں
جس پہ جھکتی ہے زمانے کی جبیں
عشق و ایماں کی تجلی ہے یہیں
اس لئے لگتی ہے ہم سب کو حسیں
یہ زمیں کعبے سے پھیلائی گئی
جس جگہ پیدا ہوئے مولا علی
حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر بھیجے جانے کے بعد یہ زمین ان سے جانی اور پہچانی گئی اور یہ خدا کی پہلی رحمت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ بنی آدم کی سرکشی کے بعد ایک بڑا طوفان آیا اور نوح (ع) کی کشتی اس طوفان سے بچ کر ’’دحوالارض‘‘ کے دن کوہ جودی پر لنگر انداز ہوئی ۔ اس طرح خداوند عالم نے ایک بار پھر زمین کو پاک کیا اور مخلوقات پر اپنی رحمت کا نزول کیا اور دوبارہ ان ہی لوگوں نے زمین پر قدم رکھا کہ جن کی زبانوں پر توحید کے کلمات جاری تھے اور خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے تھے -
دحوالارض کے دن حضرت نوح (ع) کی کشتی کوہ جودی پر اتری، اس کے علاوہ اسی دن ابوالانبیاء حضرت ابراہیم (ع) کی ولادت اور حضرت عیسیٰ (ع) کی بھی ولادت ہوئی۔ اس کے علاوہ احادیث اور تاریخی کتب میں یہ بھی آیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے ہی دن ہزاروں عازمین کے ساتھ اپنا آخری حج کرنے کے لیے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔ اس سفر میں حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ ساتھ ، تمام ازواج مطہرات اور بہت سے اصحاب پیغمبر(ص) بھی ساتھ تھے۔
قرآن کریم نے سورہ نازعات کی آیت نمبر 30 میں ’’دحوالارض‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاهَا ۔ یعنی اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں "دحاھا " کے معنی وہی " دحوالارض " اور زمین بچھائے جانے کے ہیں۔ امام رضا علیہ السلام بھی اس دن کے بارے میں فرماتے ہیں: "ذی القعدہ کی 25 تاریخ کو خانہ کعبہ ، زمین پر قرار پایا اور یہ زمین پر پہلی رحمت الٰہی تھی۔ "خدا نے اس مقدس جگہ کو سب کے لیے سلامتی اور امن کی جگہ بنایا۔
"دحو الارض"(زمین کا بچھایا جانا) سے مراد یہ ہے کہ آغاز میں زمین کی تمام سطح پر پہلے سیلاب کی بارشوں سے جمع شدہ پانی تھا۔ یہ پانی تدریجا زمین کے گڑھوں میں چلا گیا اور پانی کے نیچے سے خشکی ظاہر ہوئی اور روز بروز اس میں وسعت آتی گئی اور بڑھتی گئی۔ دوسری طرف زمین ابتدا میں غیر مسطح اور ناہموار، ٹیلوں اور ناقابل سکونت، نشیب و فراز کی شکل میں تھی۔ بعد میں جب مسلسل سیلابی بارش ہوئی تو زمین کی بلندیاں کم ہوئیں اور درّے بڑھ گئے۔ پھر دھیرے دھیرے زمین ہموار ہوتی گئی اور انسانوں کی زندگی اور کھیتی باڑی کے قابل ہوگئی۔ اسی بچھائے جانے اور پھیلائے جانے کے عمل کو "دحو الارض" کہا جاتا ہے۔
ٹھہر گئی ہے طبیعت اسے روانی دے
زمین پیاس سے مرنے لگی ہے پانی دے
دحو الارض کا دن اتنا مبارک اور مسعود ہے کہ اس کے لئے اس دن کے مخصوص آداب اور اعمال بھی ذکر ہوئے ہیں۔
"دحو الارض" کا دن سال کے ان چار دنوں میں سے ایک دن ہے جس میں روزہ رکھنے کی فضیلت سب دنوں سے زیادہ اور نمایاں خصوصیت کی حامل ہے۔ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ اس دن کے روزے کا ثواب ستر سال کے روزہ کے برابر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ ستر سال کا کفارہ ہے۔ جو شخص بھی اس دن روزہ رکھے اور اس کی شب میں عبادت کرے اس کے لئے سو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا لہذا جو شخص اس دن روزہ رکھے اور اس کی شب میں عبادت کرے گویا اس نے سو سال تک دن میں روزے رکھے اور راتوں میں عبادت کی ہے - ان کے علاوہ اس دن میں امام رضا علیہ السلام کی زیارت تمام مستحب اعمال میں سب سے افضل و برتر عمل ہے اور اس دن دحوالارض کی نیت سے غسل انجام دینا اور اس دن کی مخصوص نمازوں اوردعاؤں پر تاکید کی گئی ہے۔
امید ہے کہ جس طرح سے دحوالارض زمین کی تطہیر کا دن ہے ہم بھی اس دن کے اعمال بجا لاکر کہ جس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اپنے دلوں کو گناہوں ، بغض و کینے اور باطنی غلاظتوں سے پاک کریں گے۔