Sep ۰۸, ۲۰۲۲ ۱۸:۲۴ Asia/Tehran
  • برطانیہ، اکیسویں صدی میں بھی نسل پرستی کا علمبردار

ایک برطانوی تحقیقاتی مرکز نے اعتراف کیا ہے کہ سیاہ فام اور ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے معاملات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

برطانیہ کی لیونگ ویج فاؤنڈیشن نام کے تحقیقاتی مرکز کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چھپن فیصد غیرسفید فام کارکنوں کو سرکاری اور غیرسرکاری دفاتر اور مراکز میں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی تنخواہیں بھی سفید فام شہریوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہوں کے معاملے میں غیر برطانوی نژاد خواتین کو سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مردوں کے مقابلے میں انہیں کم تنخواہ دی جاتی ہے۔

لیونگ ویج فاؤنڈیشن کی سربراہ کیتھرین چیپمین نے بتایا ہے کہ اقلیتیں نہ صرف سب سے زیادہ توانائی کے بحران کی زد میں آ رہی ہیں بلکہ کورونا وبا کا شکار ہونے والوں میں بھی ایشیائی اور سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے زیادہ رہی ہے۔

اس سے قبل کارکنوں کی یونین نے اعلان کیا تھا کہ سرکاری اور نجی دفاتر میں نسل پرستانہ رویے کے نتیجے میں ایک لاکھ بیس ہزار افراد نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ اس مسئلے نے برسر روزگار افراد سے ان کی خود اعتمادی بھی چھین لی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ نسل پرستانہ رویے کا مسئلہ برطانیہ تک محدود نہیں، بلکہ زیادہ تر یورپی ممالک میں ایک بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔ فرانس اور برطانیہ نسل پرستی اور امتیازی سلوک میں سرفہرست ہیں جہاں کے سیاہ فام اور ایشیائی نژاد شہری اپنے مسائل کے حل کے لئے مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

ٹیگس